آج کی بابرکت شب نور شب برات کے نام سے معروف اور مشہور ہے

آج کی بابرکت شب نور شب برات کے نام سے معروف اور مشہور ہے آج کی بابرکت شب نور شب برات کے نام سے معروف اور مشہور ہے

آج کی بابرکت شب نور شب برات کے نام سے معروف اور مشہور ہے

آج کی بابرکت شب نور شب برات کے نام سے معروف اور مشہور ہے

اس بابرکت شب کے دامن میں اتنی برکتیں اور اتنی رحمتیں ہیں کہ اللہ جل شانہ گنہگاروں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرما دیتا ہے۔۔  ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں ایک دن میں دیکھا کہ حضور میرے حجرہ میں نہیں ہیں تو میں حضور کو تلاش کرنے نکلی جنت البقی میں اسمان کی طرف سر اٹھائے حضور اللہ سے التجائیں کر رہے تھے مجھے دیکھا تو ارشاد فرمایا عائشہ کیا تم نے یہ سمجھا کہ اللہ کا رسول تم سے زیادتی کرے گا فرماتی ہیں میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ سمجھا شاید اپ کسی زوجہ محترمہ کے حجرہ میں تشریف لے گئے فرمایا اج لیلۃ النصف من شعبان شعبان کی پندرویں رات ہے درمیانی شب ہے اس رات کو اللہ تعالی جل شانہ آسمان دنیا پہ نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو قلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کو جہنم کی اگ سے ازاد کر دی قبیلہ بنو قلب عرب کا بہت بڑا قبیلہ تھا جو بھیڑ بکریاں پالتے تھے اور لاکھوں کی تعداد میں ان کی بکریوں اور بھیڑوں کے ریوڑ تھے تو اس قبیلے کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ گنہگاروں کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دیا جاتا ہے تو یہ وہ بابرکت شب رحمت ہے شب نور ہے جس کے دامن میں اتنی برکتیں ہے کہ کوئی محروم نہیں رہتا صرف وہ بد نصیب لوگ جو شرک میں مبتلا ہیں جو سخت کینہ پر مبتلا ہیں جو قطع رحمی کرتے ہیں قاتل ہیں آدھی شرابی یا بدکار ہیں انہیں اس مبارک رات میں محروم رکھا جاتا ہے۔۔

 ورنہ اللہ کی رحمتوں کا عموم اس بابرکت راتوں میں اس قدر ہوتا ہے کہ کوئی گنہگار جو اس کے حضور ہاتھ دعا کے لیے اٹھاتا ہے اور اپنا دامن پھیلا کے اس کی رحمتیں مانگتا ہے اسے محروم نہیں رکھا جاتا، بلکہ اللہ سب گنہگاروں کو جہنم کی آگ سے ازاد کر دیتا ہے ایک روایت میں اتا ہے کہ اللہ (لیلۃ النصف من شعبان) شعبان کی پندرہویں رات کو آسمان دنیا پہ اپنی رحمتوں سے جلوہ گر ہوتا ہے اور فرماتا ہے ہے کوئی رزق مانگنے والا میں اس کی جھولیاں بھر دوں ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا میں اس کے گناہ معاف کر دوں ہے کوئی مجھ سے عافیت مانگنے والا میں اس کو عافیتوں سے نواز دوں ہے کوئی فلاں چیز مانگنے والا ہے کوئی فلاں چیز مانگنے والا اس کی رحمتیں اواز دیتی ہیں اور یہ اواز غروب افتاب سے لے کر کے طلوع فجر تک مسلسل بندوں کو دی جاتی ہے۔۔

 اور بندے اس کے حضور اگر دست طلب دا راز کریں اپنی جھولی پھیلائیں تو اللہ تعالی ان کو ان کے مانگنے سے بھی زیادہ عطا فرماتا ہے، اس امت کو اللہ تعالی نے اس طرح کی راتیں دے کر کے مغفرت بخشش غفران اور رحمتوں کی فراوانی نصیب کی ہے ،میرے حضور نے ارشاد فرمایا ایک شخص صبح سے لے کے ظہر تک مزدوری کرتا ہے اس کو ایک د رہم ملتا ہے ایک ظہر سے لے کر عصر تک مزدوری کرتا ہے اس کا وقت تھوڑا ہے لیکن اس کو بھی ایک  درہم ملتا ہے اور تیسرا شخص عصر سے لے کر مغرب تک مزدوری کرتا ہے اس کو دودرہم  ملتے ہیں جبکہ اس کا وقت دونوں سے کم ہے فرمایا پہلی مثال یہود کی ہے دوسری مثال نصاری کی ہے اور تیسری مثال میری امت کی ہے کہ اس کو تھوڑے عمل پر زیادہ ثواب دیا جاتا ہے تو یہود اور نصاری نے اس پہ برا منایا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ نے ان کے اجر میں تو کمی نہیں کی لیکن مسلمانوں کو زیادہ اجر دے دیا تو یہ اس کی کرم نوازی ہے تو یہ تھوڑے وقت کی عبادتیں اور چند راتوں کی بیداری اور مخصوص اوقات میں اللہ کے حضور عبادت و ریاضت ایک گنہگار کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیتی ہے ۔۔

اس کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ بھی بنتی ہے اور درجات کی بلندی کا سبب بھی دیکھیے لیلۃ القدر ایک رات ہزار مہینے کی عبادتوں سے بہتر قرار پاتی ہے اسی طرح دیگر مواقع ہیں کہ اللہ تعالی اس امت کے لیے رکھے ہیں؛ اس کی رحمتیں قیمت نہیں مانگتی اور اس کی رحمتیں بہانہ تلاش کرتی تو وہ اپنے بندوں کو بخشنے پہ امادہ ہے اگر وہ اپنا دامن طلب پھیلائیں تو ۔۔

 قران مجید میں فرمایا ہے ( ما یفعل الله بعذابکم) اللہ تمہیں عذاب دے کے کیا کرے گا؛ اس کی یہ چاہت نہیں ہے کہ تمہیں عذاب میں مبتلا کرے اس کی چاہت یہ ہے کہ تم اس کی چوکھٹ پہ اؤ جھولی پھیلاؤ اس سے خیرات اور رحمت مانگو اور و تمہارے ماضی کے سارے گناہ معاف کر کے ساری غلطیاں معاف کر کے تمہیں اپنی رحمتوں سے مالا مال فرما دے ۔۔

وہ بندوں کو بخشنے پہ بندوں کی مغفرت کرنے پہ آمادہ ہے اور اس کی رحمتیں بہانے تلاش کرتی ہیں (اللہ اکبر) اور دوسری جانب اس کے بندے اس کے مملوک اس کی مخلوق گنهکار اور نیکوکار اس کی رحمتوں کے طالب ہوتے ہیں بلکہ وہ گناہ کرنے کے بعد جب معافی مانگتے ہیں تو اللہ کو یہ معافی بہت پسند ہے؛؛ معافی مانگنا اس کے حضور اپنے دامن کو پھیلانا وہ اس کو بہت زیادہ محبوب ہے۔۔

 انسان کی فطرت کے اندر گناہ رکھا گیا ہے آگ ہوا مٹی پانی یہ ان چار چیزوں کا مرکب ہے اس کے جو عناصر ہیں اس میں کبھی اعتدال قائم نہیں رہتا اور اس سے گناہ سرزد ہو جاتا ہے گناہ کرنے کے بعد بندے کا اس گناہ پہ اسرار کرنا اڑ جانا ضد کرنا توبہ نہ کرنا اللہ کو یہ پسند نہیں ہے ۔۔

لیکن اگر اس سے گناہ سرزد ہو جائے تو پھر وہ توبہ کر لے تو اللہ کو یہ بہت زیادہ پسند ہے جو اس سے ہو سکے نیکی وہ اللہ کے حضور پیش کرے لیکن اس کے اندر جو شر رکھی گئی ہے اس کے اندر جو قوت خدا کی رکھی گئی ہے  اگر اس سے گناہ سرزد ہو جائے تو پھر وہ اللہ سے توبہ کرے اللہ کی طرف رجوع کرے تو اللہ اس کی توبہ کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ اس کے گناہوں کو معاف کرتا ہے اور گناہوں کو بدل کے نیکیوں میں تبدیل کر دیتا جب گناہ نیکیوں میں تبدیل ہو گئے تو جتنا بڑا گنہگار تھا اتنا بڑا نیکوکار ہو گیا حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ بازار میں جا رہے تھے تو ایک شرابی نے ہاتھ میں بوتل پکڑی تھی شراب کی  ۔۔

 حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس نے دیکھا تو ڈر گیا اور دل ہی دل میں کہا اے اللہ آج عمر کے قہر سے بچا لے میں تیری بارگاہ میں سچی توبہ کرتا ہوں اور جلدی سے شراب کو بغل میں چھپا لیا اتنے میں حضرت عمر سر پہ پہنچ گئے اور گرج کر کڑک کے کہا کہ یہ تیری بغل میں کیا ہے؛ کیونکہ اس کو بوتل چھپاتے دیکھا تھا تو وہ ڈر گیا اور ڈرتے ڈرتے کہنے لگا’’ حضرت سرکہ ہیں حضرت عمر نے کہا نکال جب نکالا تو شراب نہیں تھی واقعی سرکہ بن چکا تھا تو جب اللہ کے حضور کوئی توبہ کرتا ہے اللہ اس کے گناہوں کو بدل کے نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے حدیث پاک میں اتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ ایک شخص کو کہے گا کہ اپنا نامہ اعمال  پڑھنے تو وہ نامہ اعمال پڑھنے لگ جائے گا تو نامہ اعمال کے اندر چھوٹے گناہ بھی ہوں گے بڑے گناہ بھی تو اللہ سے حیا کرتے ہوئے شرم کرتے ہوئے وہ بڑے بڑے گناہوں کو چھوڑتا جائے اور چھوٹے چھوٹے گناہوں کو پڑھتا رہے گا جب وہ سارے گناہ بڑھ چکے گا اور کتاب ختم ہوگی تو اللہ تعالی اسے فرمائے گا میرے بندے تو نے یہ جتنے گناہ پڑھے ہیں میں نے سب کو بدل کے نیکیوں میں تبدیل کر دیا ۔۔

تو بندہ کہے گا اللہ ابھی تو میرے بڑے بڑے گناہ رہتے ہیں جو میں نے پڑھے ہی نہیں   حضور جب یہ بیان فرما رہے تھے تو حضور اتنا مسکرائے اتنا مسکرائے کہ صحابہ نے حضور کی داڑھ نظرآئے۔۔

   تو پہلے وہ بڑے بڑے گناہ چھوڑے جا رہا تھا لیکن جب اللہ فرمائے گا کہ میں تیرے گناہوں کو بدل کے نیکیوں میں تبدیل کر دیا تو وہ کہے گا ابھی تو بڑے بڑے گناہ رہتے جو میں نے ابھی پڑھے ہی نہیں تو جب کوئی بندہ اس کے حضور توبہ کرتا ہے اللہ یہ نہیں دیکھتا اس نے گناہ کتنے کیے ہیں یہ دیکھتا بندہ آیا میری چوکھٹ پہ ہے۔۔ تو اللہ اس کے پچھلے سارے گناہ معاف فرمادیگا (اللہ اکبر) میرے اور اپ کے اقا و مولا نے اللہ کے حضور توبہ کرنے اور اس پر اللہ کی خوشی اور اللہ کی خوشنودی کا ذکر کرتے ہوئے ایک مثال بیان فرمائی ہے ۔۔

 ایک شخص صحرا میں سفر کر رہا تھا تو وہ ایک درخت کے نیچے دوپہر کاٹنے کے لیے سستانے کے لیے رک گیا وہ درخت کے ساتھ اپنے اونٹ کو باندھ دیا اور خود لیٹ گیا تاکہ دوپہر کاٹ لو تھوڑی دیر کے بعد جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے کیا دیکھا کہ اونٹ مع ساز و سامان کے ساتھ غائب ہے اب صحراب میں اونٹ کا گم ہو جانا گویا زندگی چلے جانے کے مترادف ہیں؛؛ تو اس نے دائیں بائیں بھاگ دوڑ کے دیکھا کہ کہیں اونٹ کا نشان مل جائے لیکن اونٹ کا نشان نہیں ملا تاحد نظر کو آنسانی آبادی نہیں وہ بھاگا اور تھک ہار نیچے بیٹھ گیا اور پیاس سے ہلکان ہوا جا رہا تھا اور درخت کے ساتھ ٹیک لگا کے لیٹ گیا اور موت کا انتظار کرنے لگا( جن لوگوں نے صحرا کا سفر کیا ہے ان کو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ کئی کئی سو میل تک انسانی ابادی ہی نہیں) اب نہ کچھ کھانے کے لیے بچا نہ کچھ پینے کے لیے بچا اونٹ بھی غائب ہو گیا توشہ بھی ساتھ ہی چلا گیا تو اب ظاہر ہے سیدھی سیدھی موت ہی نظر ارہی ہے تو وہ اس درخت کے ساتھ ٹیک لگا کے بیٹھ جاتا ہے اور موت کا منتظر ہوتا ہے تھوڑی دیر کے بعد پھر اس کی دوبارہ آنکھ لگ جاتی ہے جب دوبارہ آنکھ لگتی ہے تو تھوڑی دیر بعد پھر آنکھ کھلتی ہے جب دوبارہ آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے کہ اونٹ جو گھما تھا مع ساز و سامان کے اس کے پاس کھڑا ہے تو صحرا میں اس حالت میں اونٹ کا مل جانا زندگی مل جانے کے مترادف ہے ۔۔

 وہ اتنا خوش ہوگا کہ خوشی کی انتہا نہ رہی بلکہ مسرتوں کے ہجوم میں درک گیا اور کہنے کیا لگا اے اللہ تو میرا بندہ اور میں تیرا رب کہنا تو یہ تھا کہ تو میرا رب اور میں تیرا بندہ ہوں لیکن خوشیوں کا ہجوم ہی اتنا تھا کہ زبان پہ قابو نہ رہا ۔۔

کہنا یہ تھا کہ اے اللہ تو میرا رب اور میں تیرا بندہ لیکن خوشیوں کے ہجوم میں وہ کہتا ہے اے اللہ تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ۔۔

حضور یہ بات بیان کرنے کے بعد صحابہ سے پوچھتے ہیں کہ ذرا بتاؤ اس بندے کو کتنی خوشی ہوئی کہ خوشی میں زبان بھی قابو نہ رہی اور اپنے اپ پہ کنٹرول نہ رہا اور خوشیوں کے ہجوم میں اسے یہ بھی پتہ نہیں چل رہا کہ وہ کیا بول رہا ہے تو صحابہ نے عرض کی حضور بہت زیادہ اسے خوشی ہوئی تو میرے حضور نے یہ بات کرنے کے بعد ارشاد فرمایا جس طرح اس کو گھما ہوا اونٹ ملا اور اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی تو فرمایا جب کوئی شخص توبہ کرتا ہے اور اللہ کے حضور پلٹ کے اتا ہے گناہوں سے معافی مانگ نے اس کی دہلیز میں اتا ہے؛؛ میرے حضور نے فرمایا اللہ اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے کہ میرا بندہ میری چوکھٹ پہ اگیا ہے تو وہ یہ چاہتا نہیں کہ اپنے بندوں کو عذاب وہ خود اگ میں چھلانگیں لگائے تو اس کی مرضی اگر گناہ سرزد بھی ہو گیا ہے تو کوئی بات نہیں معافی مانگ لے 

In English

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *