آداب و ملاقات و معاشرت 

آداب و ملاقات و معاشرت  آداب و ملاقات و معاشرت 

آداب و ملاقات و معاشرت 

آداب و ملاقات و معاشرت 

قران پاک کا اصل متوجہ انسان ہے۔۔ اسی لیے قرآن نے اس کی زندگی کے ہر گوشے کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔۔ خواہ وہ معاشیت ہو، سیاست ہو، یا معاشرت عبادت ہو، یہ معاملات،اسلام نے کہیں بھی انسان کو ہدایت سے محروم نہیں کیا گیا ہے۔۔

اللہ تبارک و تعالی قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔۔

پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔۔

قرآن حکیم،میں تمام تعلقات ودنیا میں سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیا گیا ہے وہ اخلاقی تعلیمات ہے۔۔ اس لے کہ ایک صالح اور آداب اخلاق کے زیور سے اراستہ معاشرہ ہی نسل انسانی کی کامیاب وسرفرازی و سلامتی کا ضامن ہوسکتا ہے۔۔ انسانی معاملات میں بعض اوقات اتنی حساسیت پیدا ہو جاتی ہے کہ اچھے بھلے مضبوط رشتوں میں عداوت اور تناؤ کا سبب بن جاتی ہے۔۔۔ اور اگر اس بد گمان کو فوری دور نہ کیا جائے تو اس کے بطن سے نفرت کی ایک ایسی چنگاری پیدا ہوتی ہے جو رشتوں کے پاکیزگی کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔۔ انسان کی تربیت میں اصلاح کا پہلو کمزور ہو تو تعلیم کے اعلی ڈگریاں کے حامل ہونے کے باوجود اس کے طرز عمل میں اخلاقی شعورکا فقدان (نقصان) ہوتا ہے۔۔

اس کا مظاہرہ دو مقامات پر بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ایک آپس کے (جھگڑا) کے وقت اور دوسرے کسی تقریب میں کھانا کھاتے وقت ان دو مواقع کا نظارہ تو معاشرے کا ہر فرد دیکھ سکتا ہے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی جو چار نشانیاں فرمائی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب اس کا کسی معاملات میں کوئی تنازع  پیش ائے تواپنے آپ سے باہر ہو جائیگا اور گالی بلوچ پر اتر ائیگا اور یہی چیز ظاہر کرتی ہے کہ انسان کی تربیت کرنے میں غفلت برتی گئی ہے اسلام انسانی حقوق اور معاشرتی ماحول میں کسی بھی ایسے اقدام سے نفع کرتا ہے،جس سے معاشرے میں بے چینی اور اضطراب و انتشار پیدا ہو اور انسان خود کو اپنے ماحول میں غیر محفوظ کرے اسی لیے اسلام چھوٹی باتوں کو بھی نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔۔

 اسلام نے دیگر معاملات میں احتیاط کے ساتھ اپس میں ملاقات کے بھی کچھ اصول بتائے ہیں۔۔

اللہ تبارک و تعالی نے قران مجید میں ارشاد فرمایا ہے۔۔

آے لوگو: جو ایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیجولو، یہ طریقہ  تمہارے لیے بہتر ہے توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلا جاؤ تو واپس ہو جاؤ اور یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے البتہ تمہارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ایسے گھروں میں داخل ہو جاؤ جو کسی کے رہنے کی جگہ نہ ہو اور جن میں تمہارا فائدہ یا کام کی کوئی چیز نہ ہو۔۔

گویا ہم کو قران نے واضح طور پر ہر فرد کو بلا اجازت کسی کے گھر میں داخل ہونے سے منع کر دیا ہے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جوحقوق اسلام نے عائد کیے ہیں اس کی وجہ انسان کے اندراحساس تحفظ پیدا کرنا ہے (سورۃ النحل) میں فرمایا گیا ہے۔۔

 اللہ نے تمہارے گھروں کو جائے سکون بنایا ہے۔۔

 گھر اسی وقت سکون و راحت کا ذریعہ بن سکتا ہے جب انسان کو اپنے گھر میں مکمل آزادی حاصل ہو اور کسی غیر کی دخل دینا کا خوف نہ ہو باہمی ملاقات کے ضمن میں یہ اصول بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ اول تو کسی کے بھی گھر جانے سے قبل اس کی اجازت لینا ضروری ہے،بلا اجازت کسی کے گھر پہنچ جانا بد اخلاقی کا مظاہرہ ہے اور اگر کسی بنا پرقبل ازوقت اجازت نہ لے تو اگر صاحب خانہ ملنے سے انکار کر دے تو  اس کے انکار کا ہرگز برا نہیں ماننا چاہیے۔۔

حضرت امام مالک رضی اللہ تعالی عنہ اپنی کتاب مئوطا میں لکھا ہے ایک شخص نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے آیا اور دریافت کیا کہ میں اپنی ماں سے بھی اس کی اجازت لے کر اس کے گھر میں داخل ہوا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس آدمی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اور میری ماں ایک ساتھ رہتے ہیں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں پھر بھی تم اجازت لے بیغرگھر میں داخل نہیں ہو سکتے کیا تم اپنی ماں کو عریاں غیرمناسب کپڑوں میں دیکھنا پسند کرو گے؟ ادمی نے کہا: ہرگز نہیں۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس لیے اجازت ضروری ہے تاکہ اس طرح کی حالت سے انسان بچ سکے۔۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم: معاشرت زندگی میں بہت احتیاط برتھا کرتے تھے۔۔ عبداللہ بن مسعود کی زوجہ فرماتی ہیں میرے شوہر بھی گھر میں داخل ہونے سے پہلے دروازہ کھٹکھٹایا کرتے تھے اس لیے انہوں نے کبھی مجھے اس حالت میں نہیں دیکھا جس میں وہ مجھے دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔۔

 ملاقات کے آداب میں ایک ادب یہ بھی ہے کہ جب کوئی کسی سے ملاقات کی غرض سے جائیں تو میزبان کا دروازہ کھٹکھٹا کر دروازے کے سامنے کھڑا نہ رہے بلکہ ایک طرف ہو کر کھڑا ہوجائے تاکہ دروازہ کھولنے پر کسی غیر محرم پر نظر نہ پڑے دوسری بات یہ ہے کہ اگر دروازے پر دستک دینے پر دروازہ نہ کھولے تو دوبارہ مزید دروازے پر دستک دے پھر بھی اندر سے کوئی جواب نہ ائے تو خاموشی سے واپس لوٹ جائے۔۔ یا گھر کے اندر سے کوئی تمہاری تعارف پوچھے تو سلام کر کے اپنا تعارف کروانا چاہیے محض یہ کہہ دینا کہ میں ہوں یا گھر والے کے تذ بذب میں ڈال دیتا ہے۔۔ ملاقات کے وقت السلام علیکم کہنا اپنے بھائی پر سلامتی اور خیر خواہی کا سب سے بہترین اظہار ہے۔۔

کلدہ بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں دودھ اور ہرنی کا ایک بچہ اور کچھ گھیر لے کر،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور نہ میں نے حاضر کی اجازت چاہی اور نہ سلام کیا تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم واپس جاؤ اور السلام علیکم کہہ کر داخل ہونے کی اجازت مانگو۔۔

اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو اسلام کی تعلیمات سے مالامال فرمائے 

اسلام حسن معاشرت کا اعلی نمونہ ہے انسانی معاملات میں کسی پہلو سے بھی وہ ایسا ماحول پیدا نہیں کرنا چاہتا،جس میں انسان خود کو غیر محفوظ سمجھے یا باہمی معاملات میں کسی کو اپنا تحریر یا عزت نفس مجرور ہونے کا احساس دل میں پیدا ہو یہ کسی قسم کے انتشار اور اخلاقی بگاڑ کی راہ معاشرے میں پھیل کر نسلوں کو تباہی اوربے سکون کا باعث بنے’’ اگر اسلام کی تعلیمات سے انحراف کیا جائے تو بے سفر کا یہ زہر گھروں سے نکل کر پورے معاشرے کو بدبو زدہ بنا دیتا ہے،اخلاق طاقت کسی بھی معاشرے سے ختم ہو جائے تو پھر اس کو برباد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا،یہ حکمت ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں سب سے زیادہ اصرار انسان کے اخلاق اور کردار کی تطہیر پر کیا گیا ہے تطہیر افکار ہی انسان کی تطہیر اعمال کے مضبوط کڑی ہے۔۔

ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ——————–

اپنے بچوں کو سچی کہانیاں سنائیے۔۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *