آزمائے گئے ہو تو نوازے بھی جاؤ گے 

 آزمائے گئے ہو تو نوازے بھی جاؤ گے   آزمائے گئے ہو تو نوازے بھی جاؤ گے 

 آزمائے گئے ہو تو نوازے بھی جاؤ گے 

 ابتلا سے انعام تک کا سفر

انسان کی تخلیق ہی امتحان کے لیے ہوئی ہے۔ یہ دنیا دارالامتحان ہے، جہاں قدم قدم پر آزمائشیں اور ابتلا ہمارا استقبال کرتی ہیں۔ کبھی صحت کی کمی، کبھی مال کا نقصان، کبھی رشتوں میں دراڑ، اور کبھی خوف و ہراس کا عالم، یہ سب اس حقیقت کا مظہر ہیں کہ انسان کو اس دنیا میں یونہی نہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ مگر کیا یہ آزمائشیں محض تکلیف دہ ہیں؟ نہیں! درحقیقت، یہ آزمائشیں ہی وہ سیڑھیاں ہیں جو ہمیں اللہ کی قربت، اس کی رضا اور بالآخر اس کی نوازشات تک لے جاتی ہیں۔ “آزمائے گئے ہو تو نوازے بھی جاؤ گے” کا یہ عنوان دراصل صبر، یقین اور توکل کے اس سفر کی عکاسی کرتا ہے جو ہر مؤمن کو طے کرنا پڑتا ہے، اور جس کے اختتام پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بے پناہ رحمتیں اور نوازشات منتظر ہوتی ہیں۔

آزمائش کا قرآنی فلسفہ: انسانیت کی اصل

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے بڑے واضح الفاظ میں یہ بتا دیا ہے کہ زندگی آزمائش کا دوسرا نام ہے۔ یہ کوئی غیر متوقع امر نہیں بلکہ اللہ کی مقرر کردہ سنت ہے۔

سورۃ البقرہ، آیت 155

“وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ”

ترجمہ: “اور ہم ضرور تمہیں کسی نہ کسی خوف، بھوک، مالوں اور جانوں کے نقصان اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے، اور (اے نبی!) صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔”

یہ آیت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ آزمائشیں زندگی کا حصہ ہیں، اور ان میں خوف، بھوک، مالی نقصان، جانی نقصان (اپنوں کا کھو جانا)، اور رزق کی کمی شامل ہے۔ ان تمام حالات میں اللہ تعالیٰ کا حکم صبر کا ہے، اور اس کے بدلے میں صبر کرنے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔

سورۃ العنکبوت، آیت 2-3

“أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ﴿٢﴾ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ ﴿٣ 

ترجمہ: “کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے محض یہ کہنے سے کہ ‘ہم ایمان لائے’ انہیں یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی؟ (۲) حالانکہ ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا، تاکہ اللہ معلوم کر لے جو سچے ہیں اور معلوم کر لے جو جھوٹے ہیں۔ (۳)”

یہ آیات اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ محض ایمان کا دعویٰ کافی نہیں، بلکہ ایمان کی سچائی ثابت کرنے کے لیے آزمائشیں ضروری ہیں۔ یہ آزمائشیں ہی کھوٹے اور کھرے میں تمیز کرتی ہیں۔

احادیثِ مبارکہ اور آزمائش کی فضیلت

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور آپ کے ارشادات ہمیں آزمائشوں کی اہمیت اور ان پر صبر کے عظیم اجر کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

صحیح بخاری کی حدیث

“ما یصیب المسلم من نصب ولا وصب ولا هم ولا حزن ولا أذى ولا غم حتی الشوکة یشاکها إلا کفَّر الله بها من خطایاه”

ترجمہ: “کسی مسلمان کو کوئی تھکاوٹ، کوئی بیماری، کوئی پریشانی، کوئی غم، کوئی تکلیف یا کوئی رنج لاحق نہیں ہوتا، یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔”

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی تکلیف بھی، اگر اس پر صبر کیا جائے، تو گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ اللہ کی نوازش ہی ہے کہ وہ ہماری کمزوریوں کے باوجود ہمیں اجر سے نوازتا ہے۔

جامع ترمذی کی حدیث

“إذا أحب الله قومًا ابتلاهم، فمن رضي فله الرضا، ومن سخط فله السخط”

ترجمہ: “جب اللہ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزمائش میں ڈالتا ہے۔ پس جو اس پر راضی رہا، اس کے لیے (اللہ کی) رضا ہے، اور جس نے ناراضی کا اظہار کیا، اس کے لیے (اللہ کی) ناراضی ہے۔”

یہ حدیث بتاتی ہے کہ آزمائشیں اللہ کی محبت کی نشانی بھی ہو سکتی ہیں۔ جب اللہ کسی بندے کو اپنے قریب کرنا چاہتا ہے، تو اسے آزماتا ہے تاکہ وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرے، اس پر توکل کرے اور اپنے ایمان کو مضبوط کرے۔

انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء اللہ کی حکایات: آزمائش سے انعام تک

تاریخِ انسانی گواہ ہے کہ سب سے زیادہ آزمائشیں انبیاء کرام علیہم السلام اور اللہ کے نیک بندوں پر آئیں۔ ان کی زندگیوں میں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے کہ کیسے آزمائشوں میں صبر کیا جائے اور اس کے بعد اللہ کی نوازشات کا مشاہدہ کیا جائے۔

حکایت 1: حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر اور نوازش

حضرت ایوب علیہ السلام کا قصہ صبر اور اللہ کی نوازشات کی بہترین مثال ہے۔ آپ کو بے پناہ مال و اولاد عطا کی گئی تھی، پھر اللہ نے انہیں شدید آزمائش میں ڈالا۔ مال و دولت چھن گئی، اولادیں ہلاک ہو گئیں، اور خود ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہو گئے کہ لوگ بھی ان سے دور ہو گئے۔ مگر حضرت ایوب علیہ السلام نے کبھی شکوہ نہیں کیا، ہمیشہ صبر کیا اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ برسوں کی اس ابتلا کے بعد، جب انہوں نے اللہ سے دعا کی

سورۃ الانبیاء، آیت 83

“وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ”

ترجمہ: “اور ایوب کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔”

اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انہیں نہ صرف شفا دی بلکہ انہیں پہلے سے بھی زیادہ مال و اولاد عطا فرمائی۔ قرآن میں ہے

سورۃ الانبیاء، آیت 84

“فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ”

ترجمہ: “پس ہم نے اس کی دعا قبول کی اور جو تکلیف اسے تھی اسے دور کر دیا، اور ہم نے اسے اس کے اہل و عیال عطا کیے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی، اپنی خاص رحمت سے اور عبادت گزاروں کے لیے نصیحت کے طور پر۔”

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ “آزمائے گئے ہو تو نوازے بھی جاؤ گے” کا وعدہ کس طرح پورا ہوا۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی ابتلا ان کے لیے درجات کی بلندی اور اللہ کی رحمتوں کا باعث بنی۔

حکایت 2: حضرت یوسف علیہ السلام کی آزمائشیں اور بادشاہت

حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کا ہر مرحلہ آزمائش سے بھرا ہوا تھا: بھائیوں کی حسد، کنویں میں پھینک دیا جانا، غلامی، زلیخا کا فتنہ، قید خانہ کی صعوبتیں۔ یہ تمام مراحل انہیں توڑنے کے لیے تھے، مگر ہر آزمائش نے انہیں مضبوط کیا اور انہیں ایک عظیم مقام پر پہنچایا۔ ان تمام سختیوں کے باوجود، یوسف علیہ السلام نے صبر کیا، اللہ پر توکل کیا اور اپنی پاکدامنی برقرار رکھی۔ ان آزمائشوں کے بعد اللہ نے انہیں مصر کی بادشاہت عطا فرمائی اور انہیں نبی کے درجے پر فائز کیا۔

قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قول ہے

سورۃ یوسف، آیت 90

“قَالُوا أَإِنَّكَ لَأَنتَ يُوسُفُ ۖ قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَٰذَا أَخِي ۖ قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا ۖ إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ”

ترجمہ: “وہ بولے: ‘کیا واقعی تم ہی یوسف ہو؟’ اس نے کہا: ‘میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔ یقیناً جو کوئی پرہیزگاری اختیار کرتا ہے اور صبر کرتا ہے، تو اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔'”

یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ تقویٰ اور صبر کا پھل کبھی ضائع نہیں ہوتا، بلکہ اس کے بعد اللہ کی بے پناہ نوازشیں منتظر ہوتی ہیں۔

آزمائش کے پیچھے اللہ کی حکمت

یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کیوں آزماتا ہے؟ اس کے پیچھے بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں

ایمان کی پختگی: آزمائشیں انسان کے ایمان کو پختہ کرتی ہیں اور اسے اللہ پر توکل کرنا سکھاتی ہیں۔ جس طرح سونا آگ میں تپ کر کندن بنتا ہے، اسی طرح انسان آزمائشوں میں گزر کر اپنے ایمان میں مضبوط ہوتا ہے۔

گناہوں کی بخشش: جیسا کہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے، آزمائشیں گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں اور انسان کو پاک کرتی ہیں۔

درجات کی بلندی: صبر اور شکر کے ساتھ آزمائشوں کا سامنا کرنے سے انسان کے درجات بلند ہوتے ہیں، اور وہ اللہ کے مقرب بندوں میں شامل ہو جاتا ہے۔

نصیحت اور عبرت: دوسروں کے لیے سبق اور عبرت کا ذریعہ بنتی ہیں۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ ایک شخص آزمائشوں میں صبر کرتا ہے اور پھر اللہ اسے نوازتا ہے، تو انہیں بھی توکل اور ثابت قدمی کا حوصلہ ملتا ہے۔

اپنی کمزوری کا احساس: آزمائشیں انسان کو اس کی عاجزی کا احساس دلاتی ہیں اور یہ سکھاتی ہیں کہ وہ اللہ کا محتاج ہے، اور ہر قوت و طاقت کا مالک صرف اللہ ہے۔

آزمائش میں ثابت قدمی اور نوازشات کا انتظار

جب انسان آزمائش میں ہو، تو اسے کیا کرنا چاہیے؟

صبر: یہ آزمائش کی سب سے اہم کلید ہے۔ صبر کا مطلب صرف برداشت کرنا نہیں بلکہ سکون کے ساتھ برداشت کرنا ہے، شکوہ نہ کرنا اور اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا۔

دعا: اللہ سے مدد مانگنا اور اپنی حاجات کو اس کے سامنے پیش کرنا۔ دعا مؤمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

استغفار: اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا، کیونکہ بعض اوقات آزمائشیں ہمارے گناہوں کا نتیجہ بھی ہوتی ہیں۔

توکل: اللہ پر کامل بھروسہ رکھنا کہ وہ ہر مشکل سے نکالنے والا ہے اور اس کی رحمت ہمیشہ ہم پر سایہ فگن ہے۔

شکر: ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا، چاہے حالات کتنے ہی ناسازگار ہوں۔ شکر کرنے سے نعمتیں بڑھتی ہیں اور آزمائشیں آسان ہوتی ہیں۔

جب کوئی شخص ان آداب کے ساتھ آزمائشوں کا سامنا کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمتوں اور نوازشات سے نوازتا ہے۔ یہ نوازشات دنیا میں بھی ہو سکتی ہیں، جیسے صحت کی واپسی، مال میں برکت، سکونِ قلب، اور لوگوں کے دلوں میں محبت۔ اور سب سے بڑی نوازش آخرت میں ہے، جہاں جنت کا دائمی انعام منتظر ہے۔

قرآن میں وعدہ:

سورۃ الانشراح، آیت 5-6

“فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴿٥﴾ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴿٦ 

ترجمہ: “پس یقیناً تنگی کے ساتھ آسانی ہے (۵) یقیناً تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ (۶)”

یہ آیات ہمیں یقین دلاتی ہیں کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ضرور آتی ہے۔ یہ اللہ کا اٹل وعدہ ہے، اور اسی پر توکل کرتے ہوئے ہمیں ہر آزمائش کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ جب آزمائشیں انتہا کو پہنچ جاتی ہیں، تو اللہ کی مدد اور رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

عملی زندگی میں اس فلسفے کا اطلاق

اس فلسفے کو اپنی عملی زندگی میں کیسے اپنایا جائے؟

چھوٹی مشکلات کو برداشت کریں: روزمرہ کی چھوٹی مشکلات اور پریشانیوں کو بھی صبر اور مثبت رویے کے ساتھ دیکھیں۔ یہ بڑی آزمائشوں کے لیے ایک تیاری ہے۔

شکرگزاری کی عادت ڈالیں: ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کریں۔ یہ سوچیں کہ آپ سے بھی زیادہ مشکلات میں مبتلا لوگ موجود ہیں۔

نماز اور ذکر کا اہتمام: یہ دل کو سکون دیتے ہیں اور اللہ سے تعلق کو مضبوط کرتے ہیں۔

مثبت سوچ رکھیں: منفی خیالات کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں، بلکہ یہ یقین رکھیں کہ اللہ آپ کے لیے بہتری ہی چاہے گا۔

دوسروں کی مدد کریں: جب آپ آزمائش میں ہوں، تو دوسروں کی مدد کرنے سے آپ کو اپنے دکھوں سے توجہ ہٹانے اور ایک نئی توانائی حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

خلاصہ کلام

“آزمائے گئے ہو تو نوازے بھی جاؤ گے” یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ ایک مکمل فلسفہ حیات ہے جو ہمیں ہر آزمائش میں امید، صبر اور اللہ پر توکل کا درس دیتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے رب کی حکمت ہماری سوچ سے کہیں بالاتر ہے، اور وہ اپنے بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا۔ ہر آزمائش ایک امتحان ہے جس میں کامیابی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتیں، برکتیں اور اجر کا وعدہ ہے۔ لہٰذا، جب بھی کوئی مشکل آئے، گھبرانے کے بجائے اللہ کی طرف رجوع کریں، صبر کریں، اور یقین رکھیں کہ آپ کی آزمائش کا یہ سفر ایک دن لازماً نوازشات کے بابرکت انجام پر پہنچے گا۔ یہ دنیا کی عارضی مشکلات آپ کی اخروی زندگی کے لیے سعادتوں کا ذریعہ بنیں گی۔


کہتے ہیں ہمارے لیے کیا ہے؟

سورة الذاريات

One thought on “ آزمائے گئے ہو تو نوازے بھی جاؤ گے 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *