اسلامی خلافت اور بادشاہت
: قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل تجزیہ
اسلامی تاریخ میں خلافت اور بادشاہت دو الگ الگ نظامِ حکومت رہے ہیں۔ ان دونوں کا بنیادی فرق ان کے قیام، اصول، مقاصد اور طرزِ حکمرانی میں ہے۔ خلافت وہ نظام ہے جسے نبی کریم ﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے قائم کیا، جبکہ بادشاہت ایک ایسا نظام ہے جو بعد میں اسلامی حکومتوں میں آ گیا، جیسا کہ یزید کے دور میں ہوا۔
خلافت کیا ہے اور کیسے قائم ہوتی ہے؟
خلافت کی تعریف
خلافت اسلامی حکومت کا وہ نظام ہے جو اللہ کے احکام اور نبی کریم ﷺ کی سنت کی روشنی میں قائم ہوتا ہے۔ اس میں حکمران (خلیفہ) کو امت کے مشورے اور رضا سے منتخب کیا جاتا ہے تاکہ وہ اللہ کے دین کو نافذ کرے، عدل قائم کرے اور لوگوں کے معاملات کو امانتداری سے چلائے۔
قرآن مجید کی روشنی میں
“اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا، پس لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو۔”
(سورۃ ص: 26)
احادیث کی روشنی میں
“میرے بعد خلافت قائم ہو گی جو نبوت کے طریقے پر ہو گی۔”
(مسند احمد)
خلافت کے قیام کے اصول:
شورٰی کے ذریعے انتخاب
خلیفہ کا تقویٰ اور عدل
امت کی رضا مندی
شریعت کا نفاذ
بادشاہت کیا ہے اور کیسے قائم ہوتی ہے؟
بادشاہت کی تعریف
بادشاہت ایک موروثی نظام ہے، جس میں اقتدار نسل در نسل چلتا ہے۔ اس نظام میں حکمران عوام کی مشاورت سے نہیں آتا، بلکہ اقتدار طاقت، خاندان یا جبر کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔
قرآن میں بادشاہوں کی مثالیں
“بے شک فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور لوگوں کو گروہوں میں بانٹ دیا۔”
(سورۃ القصص: 4)
نبی کریم ﷺ کی پیشین گوئی
“پھر (خلافت کے بعد) موروثی بادشاہت ہو گی، پھر جبری حکومت ہو گی، پھر خلافت نبوت کے طریقے پر لوٹے گی۔”
(مسند احمد)

خلافت اور بادشاہت میں فرق
پہلوخلافتبادشاہتقیام کا طریقہامت کی رضا سے، شوریٰ کے ذریعےموروثی یا جبر سےنظام حکومتشریعت پر مبنیطاقت پر مبنیحکمران کا مقصداللہ کی رضا، عدل و انصافذاتی طاقت، مال، شہرتحکمران کی تبدیلیمشورے سے ممکنخاندانی نظام میں مشکلتنقید کی گنجائشہے، مشورہ لازمنہیں، جبر ہوتا ہےمثالیںخلفائے راشدینیزید، بنو امیہ، بنو عباس کے بادشاہ
یزید کا نظام: خلافت سے بادشاہت کی طرف تبدیلی
یزید بن معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے خلافت کو موروثی بادشاہت میں بدلا۔ حضرت معاویہؓ نے اپنے بیٹے یزید کے لیے بیعت لینا شروع کی، جو کہ خلفائے راشدین کے طریقے کے خلاف تھا۔
حضرت حسینؓ اور دیگر صحابہ کا ردعمل:
حضرت حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا۔
عبداللہ بن زبیرؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ نے بھی یزید کی مخالفت کی۔
کربلا کا واقعہ اسی انکار کی ایک مثال ہے۔
یزید کے دور میں
اہل بیت پر ظلم ہوا
مدینہ منورہ پر حملہ (واقعہ حرّہ)
مکہ مکرمہ پر فوج کشی
یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ یزید کی حکومت خلافت نہیں بلکہ جابرانہ بادشاہت تھی۔
آئمہ کرام اور علما کا موقف
امام ابو حنیفہؒ
یزید کے دور کو خلافت نہیں مانا، بلکہ عدل اور شریعت سے منحرف قرار دیا۔
امام غزالیؒ
فرماتے ہیں کہ خلافت کے لیے امت کی رضا اور شریعت کی پابندی لازم ہے۔ بادشاہت اسلامی اصولوں سے انحراف ہے۔
خلاصہ
خلافت کا نظام شریعت، عدل اور مشورے پر مبنی ہے، جو امت کی رضا سے قائم ہوتا ہے۔
بادشاہت جبر، موروثیت اور دنیاوی اقتدار کی ہوس پر مبنی ہوتی ہے۔
یزید کی حکومت خلافت نہیں، بلکہ بادشاہت تھی جو نبی کریم ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق خلافت سے انحراف کا آغاز تھی۔