اسلام میں عورتوں کا مقام وہ مرتبہ 

اسلام میں عورتوں کا مقام وہ مرتبہ  اسلام میں عورتوں کا مقام وہ مرتبہ 

اسلام میں عورتوں کا مقام وہ مرتبہ 

اسلام میں عورتوں کا مقام وہ مرتبہ 

اسلام میں عورتوں کا مقام وہ مرتبہ 
اسلام میں عورتوں کا مقام وہ مرتبہ

 اسلامی معاشر میں مرد اور عورت کو شرم و حیا والی زندگی گزارنے کی تاکید کی گئی ہے۔ بحیثیت انسان اللہ تعالی کے بندے ہیں ویسے ہی عورتیں بھی اللہ تعالی کی بندیاں ہیں اس لیے عبادت میں عورت اور مرد کے حقوق مساوی ہیں جان مال عزت ابری کی حفاظت میں مرد عورت کے وہ مساوی ہے۔۔ لیکن معاشرتی زندگی گزارنے کا وقت آیا تو شریعت نے گھر کے اندر کہ سارے کام عورت کو سونپ دیئے کہ وہ گھر کے اندر رہ کراپنے آپ کو مصروف رکھے بچوں کی اچھی تربیت کریں شرم و حیا کی حفاظت کرے اورشریعت مرد کی ذمہ یہ لگایا کہ وہ گھر کے چار دیواری کے باہر بوجھ اٹھائے، اگر شریعت عورت سے کہتی تم اپنی روزی خود کما کر کھاؤ تو اس سے پھر ناموس کی حفاظت کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔ اس لیے پوری زندگی عورت کے لیے خود کمانا فرض نہیں، عورت اگر بیٹی ہے تو اس کا خرچہ باپ کے اوپر فرض ہے، بہن ہے تو اس کا خرچہ بھائی کے اوپر فرض ہے، اگر بیوی ہو تو اس کا خرچہ خاوند کے اوپر فرض ہے، اور اگر ماں ہو تو اس کا خرچہ اس کے بچوں کے اوپر فرض ہے، پوری زندگی عورت کو کہیں یہ وقت نہیں اتا کہ وہ باہر نکل کر اپنی روزی کمائے تو جب شریعت نے اس کو باہر کی دنیا سے بے نیاز کر دیا اس کی ضرورتیں گھر بیٹھے ہی پوری ہو رہی ہیں وہ اپنی محل میں ملکہ کی سی زندگی گزار سکتی ہے، تو اب شریعت نے کہا کہ تم اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرو، اگر اس عورت کو نوکری کرنے کے لیے اپنے بزنس کے آڈر لینے کے لیے غیر محرم کے پاس جانا پڑا تو معلوم نہیں غیر محرم لوگ کس کس حیلے اور بہانے سے اس کے جسم کے ساتھ کھیلتے اور اس کو مجبور ہونا پڑتا نوکری حاصل کرنے کے لیے بزنس حاصل کرنے کے لیے اپنی عزت کو بھی داؤ پر لگانا پڑتا، تو شریعت نے اس کی حفاظت اس طرح سے کی کہ مرد کو ذمہ دار بنایا اور عورت کے سر پہ یہ بوجھ نہیں رکھا، کہ وہ خود کمائے اور پھر کھائے۔۔ حسن دیکھیے شریعت کا کہ جب عورت کو عزت وناموس کی حفاظت کا حکم بھی دینا تھا تو اس کو باہر کی دنیا سے بے نیاز کر دیا فرمایا کہ تم گھر میں رہو تمہارے مردوں پر فرض ہے کہ تمہیں گھر میں لا کر نان و نفقہ دیں گے۔۔

اسلامی معاشرے میں عورت کے لیے اس طرح کی تدابیر ہے۔۔ 

شریعت نے مردوں کو علیحدہ  حکم دیا کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور عورت کو علیحدہ حکم دیا کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں۔۔

 چنانچہ قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہے 

اے نبی اپنے ایمان والوں سے فرما دیجیے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔۔

اور مومنہ عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور وہ بھی اپنے ناموس کی حفاظت کریں۔۔

تو مردوں کو اپنی نگاہیں ہٹانے کا علیحدہ حکم دیا اور عورتوں کو اپنی نگاہیں ہٹانے کا علیحدہ حکم دیا بلکہ جتنی احتیاطی تدابیر ہو سکتی تھی وہ ساری کی ساری مردوں اور عورتوں کو سمجھا دیں۔۔

 عورتوں سے کہا کہ تم اپنے گھروں میں رہو۔۔ عذر اور ضرورت کے وقت محرم مردوں کے ساتھ باہر نکل سکتی ہو، اور پہلے والی جاہلیت اور رسم و رواج کی باتیں نہ کرو تو گویا عورتوں کو منع کر دیا کہ وہ بے پردہ ہو کر باہر نہ نکلے اور رواجوں کے پیچھے نہ بھاگے بلکہ اللہ کو راضی کرنے والی زندگی کو اختیار کرے اور اگر کبھی ایسا موقع ہو کہ مردوں کو عورتوں سے کوئی چیز لینی دینی ہو یا بات کرنی ہو تو (قران پاک میں فرمایا گیا تم اپنے پردے کے پیچھے ان سے مانگو بات کرو)۔ اور یہ تمہارے دلوں کی پاکی کے لیے بھی اچھا ہے۔۔

تو یہاں قران نے دونوں کے دلوں کی پاکیزگی کی بات کی کوئی عورت یا نہیں کہہ سکتی کہ اگر مرد مجھ سے بات کرے تو مجھ پر اثر نہیں ہوتا، کوئی مرد یہ نہیں کہہ سکتا کہ عورت مجھ سے بات کرے تو مجھ پر اثر نہیں ہوتا، اللہ کا قران سچ کہہ رہا ہے رہا ہے، کہ تم پردے کے پیچھے سے گفتگو کرو یہ دونوں کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے اچھا ہے۔۔ اور پھر اس پر یہ بات بھی فرما دی کہ عورت کو اگر غیر محرم سے بات کرنی بھی بڑے دروازے کے پیچھے سے’’ یا پردے کے پیچھے سے’’ یا فون کے اوپر’’ فرمایا کہ تم اپنی آوازوں کو نرم نہ کرو جب ان سے بات کرو تو سختی سے بات کرو۔۔

دیکھا اپ نے کس طرح اسلام نے عورت اور مرد کو کیسے کیسے حق عطا کیے ہیں؟ 

====================

دوستی کی فضیلت واہمیت 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *