اسلام میں معلم کا مقام
معلم تو چار حرفوں کا مجموعہ ہے
لفظ معلم کہنے کو تو چار حرفوں کا مجموعہ ہے مگر یہ اپنے اندر پورے معاشرے کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے، اس ایک شخصیت میں معاشرے کا زوال وترقی ووسعت ہے یہ حیرت انگیز ایجادات اور نت نئی دنیا میں آپ کو جو تبدیلیاں نظر ارہی ہیں یہ سب اس ایک شخص کی گرد گھومتی ہے۔۔
اسلام میں معلم کی حیثیت
معلم کی حیثیت ایک عمارت بنانے والے کی طرح ہے معلم کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری اللہ پاک نے رکھی ہے۔۔ معلم کو جو مقام ہمارے دین اسلام میں دیا گیا ہے شاہد ہی کسی اور مذہب میں وہ مقام اس کو دیا گیا ہو جس مذہب کی ابتدا ہی لفظ اقراء سے ہو اس میں پڑھانے اور پڑھنے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اللہ نے اس کائنات کے لوگوں کے لیے انبیاء مبعوث فرمائے،انہوں نے حق کی اور ہدایت کی تعلیم لوگوں کو دیتے تھے’’ لوگوں کو اچھے اور برے میں فرق کرنا سکھاتے تھے، جو اس دنیا میں نئے نئے مشکلات کا کسی طرح سامنا کرنا ہے اس کی تربیت فرماتے تھے’’ اس علم کی بنا پر انسان کو وہ مقام ملا جو فرشتوں کو بھی نہ ملا۔۔۔
اسلام میں معلم کے بغیر علم نہیں
علم معلم کے بغیر نہیں سیکھا جا سکتا ہے علم اللہ کا نور ہے جس کے لیے اللہ تبارک و تعالی اپنے خاص بندوں کو چنتا ہے انبیاء کرام اللہ کے خاص بندے ہیں اور انہی خاص بندوں نے یہ ذمہ داری پھر انسانوں پر ڈال دی ہے—” حدیث پاک میں ہے اپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اسمان و زمین کی تمام مخلوقات بلاؤں میں رہنے والی چونٹیاں پانی میں رہنے والی مچھلیاں اس شخص کے لیے دعائے خیر کرتی ہے جو لوگوں کو بھلائی سکھاتا ہے–( ترمذی شریف
اور ایک جگہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”بہترین صدقہ یہ ہے کہ انسان علم سیکھے اور اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے” حدیث ابن ماجہ۔۔
معلم قوموں کے معمار(عمارت بنانےوالا) ہے’ جن کے ہاتھوں میں بچے ایک ایسی صاف تختی لے کر اتے ہیں کہ وہ اس پر جو لکھتا جائے گا وہ ان کے ذہنوں پر نقش ہوتا جائے گا ایک معلم اگر چاہے تو معاشرے کو ترقی کو اس منزل پر پہنچا سکتا ہے جس کی اس معاشرے کو ضرورت ہوتی ہے۔
اسلام میں اچھے معلم کی پہچان
تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح دنیا کے عظیم معلمین نے اپنے شاگردوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا اچھا معلم نہ صرف بچوں کو نصاب کتاب کی تعلیم دیتا ہے بلکہ وہ اپنی تخلیق اور مطالعہ کی وجہ سے بچوں میں نصاب کے علاوہ بہت ساری مہارتیں پیدا کراتا ہے۔۔
استاد طلبہ کے لیے ائینہ ہوتے ہیں طلباء محض کلاس کے سبق منہ کے الفاظ اور بلیک بورڈ کی تحریر کو ہی نہیں پڑھتے، بلکہ استاد کی نقل و حرکت عادت اور رویہ و رجحانات کا بھی اثر لیتے ہیں، اسی لیے استاد کو چاہئے کہ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنا بھی جائزہ لے جن مقصد اور اقتدار کو وہ بچوں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں پہلے ان کو اپنے وجود میں تلاش کرے تب ہی وہ مخلص اور سچے استاد کا کردار ادا کر سکتے ہیں، اور سماج کو اپنی صلاحیت سے فائدہ پہنچا سکتے ہیں،” بچوں میں اسی چیز کا اثر ہوگا جو استاد میں موجود ہوگی وہ اس کی روحانی، نفسیاتی، اخلاقی، معاشرتی، بلکہ ہم پہلو تربیت کرنے کا ذمہ دار ہے۔۔
یہ سب تب ممکن ہے جب معلم کا اپنے کردار اس چیز کا ائینہ دار ہو جس میں یہ تمام خوبیاں پائے جائے جو ہمارے اقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر موجود تھے، کیونکہ دنیا کے سب سے بڑے معلم تو وہ خود ہے۔۔ ہم ان کے جیسا تو نہیں بن سکتے لیکن ان کی زندگی ہمارے لیے مشغلہ راہ ہے جس پر چل کر ایک معلم اپنی اصلاح کر سکتا ہے- اور اپنے طلبہ کی رہنمائی کر سکتا ہے۔۔ کردار کے بغیر علم دماغ کا عیاشی ہے اور دل کا نفاق ہے، اور عمل کی خوبیاں پیدا نہ ہو تو علم کا درخت بے ثمر بے فیض ہے، انہیں طالب علم کے لیے حسن اخلاق کا نمونہ ہونا چاہئے قابلیت کیونکہ شرافت اور اخلاق کی وجہ سے تعلیم با آور ہو۔۔
اسلام میں استاد کی شخصیت
استاد کی شخصیت براہ راست بچوں کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے وہ ان کے دلوں کو چھو لیتا ہے ایک اچھا معلم وہ ہوتا ہے جو اسلام کے مطابق بچوں کی تربیت کرے ۔،اسلام کے نزدیک معیاری تعلیم وہ ہے جس کے نتیجے میں انسان خود شناسی اور خداشناسی سے ہمکنار ہو ورنہ تعلیم اس کے اور کوئی تبدیلی نہیں آسکے گی وہ ایک اچھا ڈاکٹر انجینیئر وکیل سائنس علیم دین یا کچھ بھی بن جائے گا لیکن ایک اچھا انسان معاشرے کا ایک سرگرم رکن نہیں بن پائے گا اور نہ اس کو انے والی دنیا میں کامیابی ملے گی ۔۔
علامہ اقبال اپنے نوجوانوں کو شاہن پرندے سے تعبیر کرتے تھے جو عیش و ارام کے بجائے پہاڑوں کی چوٹیوں پر زندگی گزارتا ہے جو مردہ شکار نہیں کھاتا اپنا شکار کر کے کھاتا ہے جو ایک بے غیرت اور بہادر پرندہ ہے۔۔
اسلام میں معلم کی فکر
معلم کو چاہیے اپنے طلباء کو ایسا درس دے کے وہ اچھے اور برے میں تمیز کر سکے دنیا کی نت نئی مشکلات کا مقابلہ کر سکے اپنے کردار کو بہتر بنائیں خود شناسی اور خدا شناسی ہو تاکہ انہیں دونوں جہاں میں کامیابی ملے موجودہ نظام میں تعلیم کاروبار کی حیثیت اختیار کر گئی ہے جس نے معلم کے مقام کو بہت نقصان پہنچایا ہے معلم کی شخصیت اب طلباء کے لیے وہ مقام نہیں رکھتی جو پرانے وقتوں میں رکھتی تھی — جہاں خلیفہ ہارون رشید کے بچے اپنے استاد محترم کے جوتے اٹھانے کے لیے بھاگتے ہیں اج بیشتر معلم تعلیمی اخلاقی روحانی لحاظ سے کہیں سے بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا، ڈگریاں کا بوجھ اٹھائے ہوئے معاشرے کی معاشی بھیڑ چال کے ساتھ چل رہا ہے جنہوں نے حق کی تعلیم دینی تھی وہ خود موجودہ دور کے پیروں کار بن گئے ہیں اور اچھے اور برے کی تمیز خود شناسی اور خدا شناسی سکھانے کے بجائے معاشرے کے کارخانوں کے اعلی کار بن رہے ہیں، اپنا حق نہ ادا کیا تو معاشرے کبھی ترقی نہیں کر سکے گا بلکہ اسی طرح یہاں بے ایمان معاشرتی استحصال کرنے والے ماؤں اور بہنوں کی عزتوں کو پامال کرنے والے ہی لوگ تیار ہوتے رہیں گے۔۔
اور معلم کو روز قیامت اللہ تعالی کے حضور جواب دینا ہوگا، اللہ ان سے سوال اللہ سے سے سوال کرے گا؟ وراثت بنایا تھا تو کیا تم نے وہ فرائض پورے کیے تو معلم کیا جواب دیں گے؟۔۔
اسلام میں معلم مخلص ہو
بچوں کی تربیت اور ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ اس میں دکھاوا نہ ہو بلکہ حقیقت میں دل سے کام کیا جائے’’ کیونکہ کام ضروری نہیں بلکہ خلوص ضروری ہے’’۔
حدیث پاک میں ہے’’ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے’’- بہت سے لوگ کام کرتے ہوتے ہیں لیکن ان کی نیت چھوٹی ہوتی ہے کام ہاتھی جتنا ہوتا ہے اور نیت جو ہے جتنی۔۔
علماء کرام، اس بات کے قائل ہیں کہ جو چھوٹے سے چھوٹا کام ہی کیوں نہ ہو لیکن نیت خالص ہونی چاہئے، بچوں کو تعلیم دینا بہت بڑا کام ہے یہ چھوٹا کام نہیں ہے- اپ کی دی ہوئی تعلیم سے نسلوں کی تربیت ہوتی ہے۔۔
بچوں کی کامیابی و تربیت والدین کے ساتھ استاد کا بھی بڑا کردار ہے، اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اہل بیت اور بزرگان دین کی تعلیمات پر عمل کرنے والا اور ہمیں ہمارے کاموں کو آسان طریقہ سے اور خلوص کے ساتھ کرنے والا بنائے۔۔
=================
================
سوره الأنفال