اندازِ گفتگو کیسا ہو؟

اندازِ گفتگو کیسا ہو؟ اندازِ گفتگو کیسا ہو؟

اندازِ گفتگو کیسا ہو؟

:قرآن و حدیث کی روشنی میں

گفتگو انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو ہے اور اس کا انداز انسان کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔ اسلام، جو دین فطرت ہے، گفتگو کے آداب پر بہت زور دیتا ہے اور قرآن و حدیث میں اس حوالے سے جامع ہدایات ملتی ہیں۔ ایک اچھی گفتگو نہ صرف معاشرتی تعلقات کو مضبوط بناتی ہے بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے قریب بھی کرتی ہے۔

قرآنِ کریم کی تعلیمات

قرآن مجید میں گفتگو کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور مسلمانوں کو ایسے انداز میں بات کرنے کی تلقین کی گئی ہے جو حکمت، نرمی اور انصاف پر مبنی ہو۔

نرمی اور شائستگی

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو فرعون جیسے سرکش بادشاہ کے پاس بھیجتے ہوئے بھی نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گفتگو میں نرمی اور شائستگی کی کتنی اہمیت ہے۔

قرآن پاک{فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ}” (سورۃ طٰہٰ: 44)

ترجمہ: “اس سے نرمی سے بات کرنا، شاید وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے۔”

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ سخت سے سخت بات بھی نرمی سے کہی جائے تو اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔

سچائی اور انصاف

گفتگو میں سچائی اور انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ جھوٹ، بہتان اور غیبت سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔

قرآن پاک {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا}” (سورۃ الأحزاب: 70)

ترجمہ: “اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔”

سیدھی بات سے مراد سچی، درست اور انصاف پر مبنی بات ہے۔

فضول باتوں سے اجتناب

قرآنِ مجید فضول اور لغو باتوں سے پرہیز کرنے کی تلقین کرتا ہے، کیونکہ یہ وقت کا ضیاع اور روحانی نقصان کا باعث بنتی ہیں۔

قرآن پاک {وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ}” (سورۃ القصص: 55)

ترجمہ: “اور جب وہ لغو بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔”

بہترین بات کرنا

گفتگو کو حسن اخلاق کا نمونہ بنانا چاہیے۔

قرآن پاک: {وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ}” (سورۃ الاسراء: 53)

ترجمہ: “اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ ایسی بات کہیں جو بہترین ہو، بے شک شیطان ان کے درمیان فساد ڈالتا ہے۔”

حدیثِ نبویؐ کی تعلیمات

احادیثِ مبارکہ میں بھی اندازِ گفتگو کے بارے میں گراں قدر نصائح موجود ہیں۔

کم گوئی اور ضرورت کے مطابق گفتگو

نبی اکرم ﷺ نے زیادہ بولنے سے منع فرمایا اور صرف ضرورت کے مطابق بات کرنے کی ترغیب دی۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا {مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ}” (صحیح بخاری و مسلم)

ترجمہ: “جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔”

یہ حدیث گفتگو کے آداب کا ایک بنیادی اصول پیش کرتی ہے۔

. نرم لہجہ اور کڑوے الفاظ سے پرہیز:

آپ ﷺ ہمیشہ نرم لہجے میں بات کرتے تھے اور کڑوے الفاظ سے پرہیز کرتے تھے۔

حدیث: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فحش گوئی، گالی گلوچ اور بازاروں میں اونچی آواز میں بات کرنے والے نہیں تھے۔ (جامع ترمذی)

غیبت اور چغلی سے ممانعت

غیبت اور چغلی سے نہ صرف معاشرتی تعلقات خراب ہوتے ہیں بلکہ یہ گناہ کبیرہ بھی ہیں۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا {أَتَدْرُونَ مَا الْغِيبَةُ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ، قِيلَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ؟ قَالَ: إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ فَقَدْ بَهَتَّهُ}” (صحیح مسلم)

ترجمہ: “کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: اپنے بھائی کا ایسے انداز میں ذکر کرنا جو اسے ناپسند ہو۔ پوچھا گیا: اگر میرے بھائی میں وہی بات ہو جو میں کہہ رہا ہوں؟ فرمایا: اگر اس میں وہ بات ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ بات نہیں تو تم نے اس پر بہتان لگایا۔”

حکایت

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بزرگ عالم ایک گاؤں سے گزر رہے تھے۔ گاؤں کے کچھ لوگ ان سے ملنے آئے اور ایک شخص نے بڑی بے رخی اور سخت لہجے میں ان سے کچھ سوالات کیے۔ عالم صاحب نے مسکرا کر اس کے ہر سوال کا انتہائی نرمی اور بردباری سے جواب دیا۔ جب وہ شخص چلا گیا تو ایک دوسرے شخص نے عالم صاحب سے پوچھا: “حضور! اس شخص نے آپ سے اتنی بدتمیزی سے بات کی، پھر بھی آپ نے اتنے تحمل سے جواب دیا، اس کی کیا وجہ ہے؟” عالم صاحب نے فرمایا: “میرے بھائی! جب اس نے مجھے اپنے بد اخلاق الفاظ کا تحفہ دیا تو میں نے اسے قبول نہیں کیا۔ میں نے سوچا کہ میں اسے اس کے عمل کا بہترین جواب دوں۔ اس نے میرے ساتھ بدکلامی کی، مگر میں نے اپنے اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔” یہ حکایت ہمیں سکھاتی ہے کہ گفتگو میں تحمل، بردباری اور نرمی ہی بہترین حکمت ہے۔

مثالیں

مؤثر گفتگو: جب کوئی شخص غصے میں ہو تو اس سے نرمی اور ہمدردی سے بات کرنا۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی دوست پریشانی میں ہے تو اسے سخت الفاظ کہنے کے بجائے، “میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم اس وقت مشکل میں ہو، کیا میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا ہوں؟” کہنا زیادہ مؤثر ہوگا۔

اختلاف رائے میں شائستگی: کسی سے نظریاتی اختلاف ہونے پر بھی احترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔ مثال کے طور پر، بحث کے دوران “آپ کی بات غلط ہے” کہنے کے بجائے، “میں آپ کی بات سے اختلاف کرتا ہوں، میرے نزدیک یہ زیادہ مناسب ہو گا…” کہنا زیادہ تعمیری ہے۔

تعریف اور حوصلہ افزائی: لوگوں کی اچھائیوں کی تعریف کرنا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا۔ مثال کے طور پر، کسی کے اچھے کام پر “بہت خوب! تم نے یہ کام بہترین طریقے سے انجام دیا ہے” کہنا۔

تنقید میں نرمی: کسی کی غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے نرمی اور حکمت سے کام لینا۔ مثال کے طور پر، “مجھے لگتا ہے کہ اس کام کو اس طریقے سے کرنے سے بہتر نتائج حاصل ہو سکتے تھے” کہنا زیادہ مؤثر ہے بہ نسبت “یہ تم نے کیا کر دیا؟ یہ تو سراسر غلط ہے!”

گفتگو کے آداب کا خلاصہ

قرآن و حدیث کی روشنی میں اندازِ گفتگو کے چند اہم آداب درج ذیل ہیں:

نرمی اور شائستگی: گفتگو میں سخت لہجے اور کڑوے الفاظ سے پرہیز کریں۔

سچائی اور دیانت: جھوٹ، بہتان اور غیبت سے بچیں اور ہمیشہ سچ بولیں۔

ضرورت کے مطابق بات: فضول اور لغو باتوں سے اجتناب کریں اور صرف ضرورت کے مطابق بات کریں۔

اچھی بات کا انتخاب: ہمیشہ بہترین اور مہذب الفاظ کا انتخاب کریں۔

دوسروں کا احترام: گفتگو کے دوران دوسروں کی بات غور سے سنیں اور ان کا احترام کریں۔

مسکراہٹ اور خوش اخلاقی: گفتگو میں مسکراہٹ اور خوش اخلاقی کو شامل کریں۔

تنازعات سے بچاؤ: ایسی گفتگو سے پرہیز کریں جو لڑائی جھگڑے اور فساد کا باعث بنے۔

گفتگو کا انداز ایک ایسا فن ہے جسے سیکھا اور بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اسلام نے ہمیں اس سلسلے میں مکمل رہنمائی فراہم کی ہے۔ اگر ہم قرآن و حدیث کی ان تعلیمات پر عمل کریں تو نہ صرف ہماری ذاتی زندگی میں سکون آئے گا بلکہ معاشرتی سطح پر بھی محبت، بھائی چارے اور امن کا ماحول پروان چڑھے گا۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ہماری زبان سے نکلنے والا ہر لفظ یا تو ہمارے لیے نیکی کا باعث بن سکتا ہے یا گناہ کا۔

آے اللہ ہم سب کو اچھی گفتگوکرنے والابنا:آمین


قربانی کا معنی و مفہوم اورمختصر تارِیخ

سورة الفرقان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *