:انسان کی تخلیق کا مقصد

:انسان کی تخلیق کا مقصد :انسان کی تخلیق کا مقصد

:انسان کی تخلیق کا مقصد

: کائنات کے سب سے عظیم راز کی نقاب کشائی

انسان، یہ اشرف المخلوقات، اس وسیع و عمیق کائنات میں ایک ایسا وجود ہے جس کی تخلیق کا مقصد بذاتِ خود ایک عظیم راز ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں بھیجا، تو یہ محض ایک حادثہ نہ تھا، بلکہ ایک منصوبہ بند، حکمت سے بھرپور اور مقصد سے مزین تخلیق تھی۔ آج کے دور میں جب مسلمان اپنی اصل سے کٹتے جا رہے ہیں، اور مادی دنیا کی چکاچوند میں اپنے حقیقی مقصد کو فراموش کر چکے ہیں، اس سوال کا جواب سمجھنا اور اس پر غور کرنا ہر مسلمان کے لیے فرض ہے۔ آئیے، قرآن و حدیث، اقوالِ علماء و صوفیاء کی روشنی میں انسان کی دنیا میں آمد کے گہرے مقاصد کو تفصیل سے سمجھیں، تاکہ ہماری زندگیوں میں ایک انقلاب برپا ہو سکے۔

. اللہ کی بندگی اور معرفت: بنیادی مقصدِ تخلیق

اللہ تعالیٰ نے انسان اور جنات کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ یہ مقصد قرآن کریم میں نہایت واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ

(سورۃ الذاریات: 56)

ترجمہ: “اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔”

یہ آیت انسان کی تخلیق کا بنیادی اور سب سے اہم مقصد ہے۔ “عبادت” کا مفہوم صرف نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک جامع اصطلاح ہے جو زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انسان کی پوری زندگی، اس کا اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، سونا، جاگنا، اس کی کمائی، اس کا خرچ، اس کا تعلق اپنے رشتوں سے، اس کا ہر عمل اللہ کی رضا اور اس کے احکامات کے تابع ہو۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “عبادت وہ جامع نام ہے جو اللہ کو پسندیدہ تمام اقوال و افعال، ظاہری اور باطنی کو شامل ہے۔”

صوفیاء کرام نے معرفتِ الٰہی کو عبادت کی روح قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان جب تک اپنے خالق کو پہچان نہ لے، اس کی عبادت بے روح رہتی ہے۔ اللہ کی معرفت حاصل کرنا، اس کی صفاتِ کمالیہ پر غور کرنا، اس کی کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں (آیات) سے سبق حاصل کرنا اور اس کی عظمت کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرنا، یہی حقیقی بندگی ہے۔ جب انسان اپنے رب کو پہچانتا ہے، تو اس کے اندر عاجزی، محبت اور خشیت پیدا ہوتی ہے جو اسے مکمل بندگی کی طرف لے جاتی ہے۔

خلافتِ ارضی اور امانت کی ادائیگی: ذمہ داری کا بوجھ

انسان کو زمین پر اللہ کا خلیفہ بنا کر بھیجا گیا۔ یہ ایک عظیم ذمہ داری ہے، جس کا ذکر قرآن کریم میں یوں ہے:

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً

(سورۃ البقرہ: 30)

ترجمہ: “اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں۔”

خلافت کا مطلب ہے کہ انسان زمین پر اللہ کے احکامات کو نافذ کرے، عدل و انصاف قائم کرے، فتنہ و فساد کو روکے اور معاشرتی امن و بہبود کو فروغ دے۔ انسان کو اللہ نے عقل، علم، اختیار اور ارادے کی آزادی دی تاکہ وہ زمین میں اچھائی کو قائم کرے اور برائی کا خاتمہ کرے۔

قرآن پاک نے ایک اور مقام پر امانت کا ذکر کیا ہے:

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا

(سورۃ الاحزاب: 72)

ترجمہ: “ہم نے امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور بڑا نادان ہے۔”

یہ “امانت” دراصل اللہ کی اطاعت، اس کے احکامات کی پیروی، اور خلافت کی ذمہ داری ہے۔ انسان نے اسے اٹھایا، اور اس کے ساتھ آنے والی ذمہ داری کو بھی قبول کیا۔ آج کے دور میں مسلمان بحیثیت خلیفہ اپنی ذمہ داری سے غافل ہیں۔ ظلم، ناانصافی، کرپشن اور فتنہ و فساد عام ہو چکا ہے، جبکہ ہماری ذمہ داری تھی کہ ہم زمین پر عدل کا نظام قائم کرتے اور اللہ کے دین کا پرچم بلند کرتے۔

امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “خلیفہ کا کام اللہ کے بندوں پر اللہ کے احکامات کو نافذ کرنا ہے۔” یہ صرف حکمرانوں کا کام نہیں، بلکہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں عدل قائم کرے اور اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنائے۔

آزمائش اور امتحان: دائمی کامیابی کا راستہ

دنیا کی زندگی ایک امتحان گاہ ہے۔ انسان کو دنیا میں بھیجا گیا ہے تاکہ اسے آزمایا جا سکے کہ کون نیک اعمال کرتا ہے اور کون برائی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا

(سورۃ الملک: 2)

ترجمہ: “جس نے موت اور زندگی کو اس لیے پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں بہتر ہے۔”

یہ آزمائش انسان کے ایمان، صبر، شکر، توکل، تقویٰ اور اخلاقی کردار کی ہے۔ دنیا کی ہر خوشی، ہر غم، ہر کامیابی، ہر ناکامی دراصل ایک امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو مال، اولاد، صحت، اقتدار، غربت، بیماری غرض ہر چیز سے آزماتا ہے۔ اس آزمائش میں کامیابی اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے، اس کے احکامات کی پیروی کرنے اور برائیوں سے بچنے میں ہے۔

حدیثِ نبوی ﷺ کا مفہوم ہے: “دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے۔” (صحیح مسلم) یہ حدیث دنیا کی حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ یہ عارضی ہے اور یہاں کی زندگی آزمائشوں سے بھرپور ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: “دنیا دارالامتحان ہے، دارالقرار نہیں۔” یعنی یہ ٹھہرنے کی جگہ نہیں، بلکہ امتحان دینے کی جگہ ہے۔ آج جب ہم دنیا کی عارضی لذتوں میں گم ہو کر آخرت کو بھول چکے ہیں، ہمیں اس حقیقت کو یاد دلانا از حد ضروری ہے کہ ہم یہاں صرف امتحان دینے آئے ہیں۔

معرفتِ الٰہی کا حصول اور توبہ کا دروازہ

انسان کی تخلیق میں ایک اہم پہلو اللہ کی لامحدود رحمت کا ظہور بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ صلاحیت دی کہ وہ غلطی کرے اور پھر توبہ کر کے اللہ کی طرف رجوع کرے۔

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

(سورۃ الزمر: 53)

ترجمہ: “کہہ دو کہ اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے (گناہ کر کے)، اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو۔ بے شک اللہ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے، وہ یقیناً بڑا بخشنے والا، بہت رحم کرنے والا ہے۔”

یہ آیت انسان کو مایوسی سے بچاتی ہے اور اسے بار بار اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے، لیکن اللہ نے اسے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا تاکہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھ کر، اصلاح کر کے اپنے رب کے قریب ہو سکے۔ صوفیاء کرام نے توبہ کو مقامِ اول قرار دیا ہے، جہاں سے انسان کا روحانی سفر شروع ہوتا ہے۔

نیکی کا پرچار اور برائی سے روکنا: امت کا فریضہ

امتِ محمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک بہترین امت قرار دیا ہے، جس کا مقصد نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے۔

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ

(سورۃ آل عمران: 110)

ترجمہ: “تم بہترین امت ہو جسے لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔”

یہ آیت مسلمانوں کو ان کی اجتماعی ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے۔ آج جب گمراہی اور بے حیائی عام ہو رہی ہے، مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ خود بھی دین پر مضبوطی سے قائم رہیں اور دوسروں کو بھی نیکی کی طرف بلائیں، انہیں دین کا صحیح فہم دیں اور برائیوں سے بچنے کی ترغیب دیں۔ یہ دعوت صرف زبانی کلام تک محدود نہیں بلکہ اپنے عمل سے، اپنے کردار سے، اپنے اخلاق سے اور اپنی قربانیوں سے دین کی دعوت دینا شامل ہے۔

حدیثِ نبوی ﷺ میں ہے: “تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے بدل دے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں برا جانے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔” (صحیح مسلم)

یہ حکم اس بات کی دلیل ہے کہ امت کا ہر فرد امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ذمہ دار ہے۔

آج کے دور میں اس مقصد کی اہمیت اور ہمارا زوال

آج مسلمان دنیا کی سب سے بڑی تعداد میں موجود ہیں، مگر افسوس کہ اپنی اصلیت اور مقصد سے دور ہو کر گمراہی اور پستی کا شکار ہیں۔ ہم نے دنیاوی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ ہمارے مقاصد صرف دولت کمانا، عہدے حاصل کرنا، اور مادی آسائشیں جمع کرنا رہ گئے ہیں۔ ہم نے اللہ کی بندگی کو صرف رسومات تک محدود کر دیا ہے، اور خلافت کی ذمہ داریوں سے غافل ہو چکے ہیں۔

ذہانت اور طاقت کا غلط استعمال: اللہ نے ہمیں جو عقل و فہم اور صلاحیتیں دی ہیں، ہم انہیں اللہ کی رضا کے بجائے اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل اور دنیاوی فتنہ فساد پھیلانے میں استعمال کر رہے ہیں۔

قرآن سے دوری: ہم نے قرآن کو صرف طاقوں کی زینت بنا رکھا ہے، اس کے احکامات کو اپنی زندگیوں سے خارج کر دیا ہے۔

اخلاقی زوال: سچائی، امانت، عدل، بھائی چارہ جیسی اقدار ہماری معاشرت سے رخصت ہو چکی ہیں۔

وقت کا ضیاع: ہم اپنے قیمتی وقت کو سوشل میڈیا، بے مقصد تفریح اور لغو کاموں میں ضائع کر رہے ہیں، جبکہ یہ وقت ہمیں اللہ کی بندگی اور دین کے فروغ میں صرف کرنا چاہیے۔

اس گمراہی سے نکلنے کا واحد راستہ اپنے حقیقی مقصد کو پہچاننا اور اس پر عمل پیرا ہونا ہے۔ جب ہم یہ جان لیں گے کہ ہماری تخلیق کا مقصد اللہ کی بندگی، خلافت کی ادائیگی اور آخرت کی تیاری ہے، تو ہماری زندگیوں میں ایک انقلاب برپا ہو جائے گا۔ ہم دنیا میں رہتے ہوئے بھی آخرت کی تیاری کریں گے، اپنے فرائض کو پہچانیں گے اور ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی کی طرف لے جائے گا۔

خلاصہ: ایک نئے آغاز کی پکار

انسان کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد ایک گہرا سمندر ہے جس کے ہر قطرے میں حکمت اور رحمت پنہاں ہے۔ یہ مقصد محض چند اعمال کی ادائیگی نہیں، بلکہ زندگی کے ہر لمحے کو اللہ کی رضا کے مطابق گزارنا ہے۔ یہ انسان کو اس کی عظمت اور ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے، اور اسے ایک بے مقصد وجود سے ایک بامعنی اور با مقصد ہستی میں بدل دیتا ہے۔ آج کے پرفتن دور میں جب مسلمان اپنی اصل سے کٹ چکے ہیں، اس پیغام کو دوبارہ زندہ کرنا، اسے اپنی زندگیوں میں نافذ کرنا، اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہی ہماری نجات کا واحد ذریعہ ہے۔ اللہ ہمیں اپنے حقیقی مقصد کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


دنیا کی طرف انکھیں اٹھتی نہیں مگر دل اس کی طرف مائل ہوتے ہیں 

سورة القصص

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *