انسان کی نفسیات اور کیمرے کا خوف

انسان کی نفسیات اور کیمرے کا خوف انسان کی نفسیات اور کیمرے کا خوف

انسان کی نفسیات اور کیمرے کا خوف

انسان فطرتاً شرم و حیاء اور عزت و ذلت کے احساسات سے جڑا ہوا ہے۔ جب ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کوئی دیکھ رہا ہے، چاہے وہ ایک غیر جاندار کیمرہ ہی کیوں نہ ہو، تو ہمارا رویہ بدل جاتا ہے۔ ہم اپنی حرکات و سکنات میں احتیاط برتنے لگتے ہیں، اپنی زبان پر قابو پاتے ہیں، اور کسی بھی ایسے عمل سے گریز کرتے ہیں جو ہماری عزت کو داغدار کر سکتا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں دنیاوی رسوائی کا خوف ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر ہماری کوئی غلط حرکت ریکارڈ ہو گئی اور وہ لوگوں کے سامنے آ گئی تو ہماری خاندانی عزت، ہماری سماجی حیثیت اور ہمارا وقار سب خاک میں مل جائے گا۔ یہ خوف اتنا شدید ہوتا ہے کہ انسان ایک معمولی سے مشین کے سامنے بھی ڈر کر غلط کام سے باز رہتا ہے، حالانکہ اس کیمرے کی اپنی حدود ہیں:

فنی خرابیاں: یہ کیمرہ خراب ہو سکتا ہے، اس کا ہارڈ ویئر فیل ہو سکتا ہے۔

بجلی کی بندش: بجلی نہ ہونے کی صورت میں یہ کام کرنا چھوڑ سکتا ہے۔

کنکشن کا مسئلہ: انٹرنیٹ یا کسی اور کنکشن کے بغیر یہ ریکارڈنگ نہیں کر سکتا۔

ڈیٹا کا ضیاع: ریکارڈ شدہ ڈیٹا کسی بھی وجہ سے ڈیلیٹ ہو سکتا ہے یا ہیک ہو سکتا ہے۔

محدود دائرہ کار: کیمرہ صرف ظاہری حرکات کو ریکارڈ کر سکتا ہے، دل کے ارادوں اور نیتوں سے بے خبر رہتا ہے۔

ان تمام خامیوں کے باوجود، محض اس گمان پر کہ کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے، ہم شرمندگی سے بچنے کے لیے گناہ سے رک جاتے ہیں۔

اللہ کی ہمہ وقت نگرانی: قرآن اور حدیث کی روشنی میں

اب اس کے مقابلے میں اس تصور کو رکھیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی کتاب قرآن مجید اور اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے ذریعے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ، جو کہ مالک کائنات اور خالق ہر شے ہے، اس کی نگرانی صرف ظاہری اعمال تک محدود نہیں بلکہ وہ ہمارے دل کے خیالات، نیتوں اور پوشیدہ ارادوں کو بھی جانتا ہے۔

 قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ہمہ وقت کی نگرانی کو واضح طور پر بیان کیا ہے

“اور تم جہاں کہیں بھی ہو، وہ (اللہ) تمہارے ساتھ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اسے خوب دیکھنے والا ہے۔” (سورۃ الحدید: 4)

وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۖ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ ہر جگہ، ہر وقت ہمارے ساتھ ہے۔ اس سے مراد اس کا علم اور اس کی قدرت ہے جو ہمیں ہر لمحہ گھیرے ہوئے ہے۔

“اور اس (اللہ) سے کوئی چیز زمین میں چھپی ہوئی نہیں، نہ آسمان میں۔” (سورۃ آل عمران: 5)

إِنَّ اللَّهَ لَا يَخْفَىٰ عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ

یہ آیت بتاتی ہے کہ کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اللہ کے علم سے پوشیدہ ہو۔ ہمارے چھوٹے سے چھوٹے اعمال اور خیالات بھی اس سے اوجھل نہیں۔

“اور ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم جانتے ہیں جو کچھ اس کا نفس اسے وسوسہ ڈالتا ہے اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔” (سورۃ ق: 16)

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ

یہ آیت اللہ کی قربت اور اس کے بے مثال علم کو بیان کرتی ہے۔ “شہ رگ سے بھی زیادہ قریب” ہونے کا مطلب ہے کہ اللہ ہمارے جسم کے اندر کی کیفیات، ہمارے دل کے دھڑکنوں اور ہمارے دماغ میں چلنے والے ہر خیال سے واقف ہے۔ کیمرہ کبھی بھی یہ قربت اور یہ گہرائی نہیں پا سکتا۔

“یقیناً اللہ کے لیے نہ زمین میں کوئی چیز چھپی ہے اور نہ آسمان میں۔” (سورۃ ابراہیم: 38)

إِنَّ اللَّهَ لَا يَخْفَىٰ عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ

یہ آیت بھی اللہ کے کامل علم کی تصدیق کرتی ہے۔

کاتبین اعمال (کراماً کاتبین)

قرآن مجید اور احادیث میں فرشتوں کی موجودگی کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو ہمارے اعمال کو ریکارڈ کرتے ہیں۔ یہ ریکارڈنگ کسی کیمرے کی طرح خامیوں سے پاک اور مکمل ہوتی ہے۔

“حالانکہ تم پر نگران (فرشتے) موجود ہیں، جو کراماً کاتبین (معزز لکھنے والے) ہیں۔ وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔” (سورۃ الانفطار: 10-12)

وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ ۝ كِرَامًا كَاتِبِينَ ۝ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ

یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ اللہ نے انسانوں پر فرشتے مقرر کیے ہیں جو ان کے اعمال کو باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ یہ فرشتے کسی بھی ٹیکنیکی خرابی کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کا کام انتہائی درستگی کے ساتھ ہوتا ہے اور ان کی لکھی ہوئی چیز کبھی مٹائی نہیں جا سکتی، نہ ہی اس میں کوئی تبدیلی کی جا سکتی ہے۔

“جس دن وہ (انسان) بات نہیں کریں گے سوائے اس کے جس کی رحمن نے اجازت دی اور وہ صحیح بات کہیں گے۔” (سورۃ النباء: 38)

يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا ۖ لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَقَالَ صَوَابًا

یہ آیت یوم حساب کا منظر پیش کرتی ہے جب انسان کو بولنے کی اجازت بھی اللہ کی مرضی سے ہوگی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن گواہیاں، جن میں ہمارے اعمال کا ریکارڈ بھی شامل ہے، حق اور سچ پر مبنی ہوں گی۔

روز قیامت کی رسوائی اور جزا و سزا

جس طرح ہمیں دنیا میں کیمرے کی ریکارڈنگ کے عام ہونے پر رسوائی کا خوف ہوتا ہے، اس سے کئی گنا زیادہ خوف اور شرمندگی کا احساس روز قیامت ہو گا جب ہمارے اعمال کا رجسٹر سب کے سامنے کھولا جائے گا۔

“اور ہر انسان کا اعمال نامہ ہم نے اس کے گلے لگا دیا ہے اور ہم قیامت کے دن اس کے لیے ایک کتاب نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔” (سورۃ بنی اسرائیل: 13)

وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ ہر شخص کا اعمال نامہ اس کے ساتھ لپٹا ہوا ہے اور قیامت کے دن اسے کھول کر پیش کر دیا جائے گا۔ اس سے کوئی بچ نہیں پائے گا۔

“اس دن زبانیں، ہاتھ اور پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔” (سورۃ النور: 24)

يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

یہ ایک اور حیران کن حقیقت ہے کہ اس دن صرف فرشتوں کا ریکارڈ ہی نہیں بلکہ خود ہمارے اعضاء بھی ہمارے خلاف گواہی دیں گے۔ یہ سوچ کر انسان کا بدن کانپ اٹھتا ہے کہ وہ جسم جس سے ہم گناہ کرتے ہیں، وہی ہمارے خلاف گواہی دے گا۔

حدیث نبوی سے وضاحت

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ کی ہر وقت کی نگرانی اور آخرت کے خوف کو متعدد احادیث میں بیان کیا ہے:

حدیث احسان: حضرت جبرائیل علیہ السلام نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان، اسلام اور احسان کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کی تعریف یوں فرمائی: “احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اسے نہ دیکھ سکو تو یہ (یقین رکھو) کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔” (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

قالَ: فأخْبِرْنِي عن الإحْسانِ؟ قالَ: أنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأنَّكَ تَراهُ، فإنْ لَمْ تَكُنْ تَراهُ فإنَّه يَراكَ.

یہ حدیث ہمارے موضوع کی روح ہے۔ یہ ہمیں اس کیفیت کو اپنانے کی ترغیب دیتی ہے جہاں ہمیں ہر وقت اللہ کی موجودگی اور اس کی نگرانی کا احساس ہو، چاہے ہم تنہائی میں ہوں یا لوگوں کے درمیان۔ یہ احساس ہی انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے۔

 قیامت کے دن کی بازپرس: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر قیامت کے دن کی سختی اور اعمال کی بازپرس کا ذکر کیا تاکہ امت اللہ کے عذاب سے ڈر کر نیک اعمال کرے۔

ہمارا دوہرا معیار اور ایمان کی کمزوری

یہ بہت بڑا سوال ہے کہ جب ہمیں دنیاوی کیمرے پر (جس کی خرابیاں اور محدودیت ہم جانتے ہیں) پورا یقین ہے کہ وہ ریکارڈ کر رہا ہے، اور اس ریکارڈنگ کے عام ہونے پر ہمیں رسوائی کا خوف ہوتا ہے، تو ہم اللہ کے مکمل اور حتمی ریکارڈنگ سسٹم پر یقین کیوں نہیں رکھتے؟ کیا ہمیں اس ذات پر یقین نہیں جس نے یہ کائنات بنائی؟ کیا ہمیں اس کے وعدوں پر ایمان نہیں؟

یہ دراصل ہمارے ایمان کی کمزوری، آخرت پر یقین کی کمی اور دنیاوی زندگی کو اخروی زندگی پر ترجیح دینے کا نتیجہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کی رسوائی زیادہ تکلیف دہ ہے بنسبت آخرت کی رسوائی کے۔ حالانکہ آخرت کی رسوائی دائمی ہوگی اور اس کے بعد کوئی معافی یا دوبارہ موقع نہیں ملے گا۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

اس سوچ کو بدلنے کے لیے ہمیں اپنے ایمان کو مضبوط کرنا ہوگا۔

قرآن پر غور و فکر: قرآن مجید کو صرف پڑھنے کے بجائے اس کے معانی پر غور کریں۔ اللہ کی قدرت، اس کے علم اور قیامت کے دن کی سختیوں کا ذکر بار بار پڑھیں۔

احادیث کا مطالعہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے رہنمائی حاصل کریں، جو ہمیں نیک اعمال کی ترغیب دیتی ہیں اور برے اعمال سے ڈراتی ہیں۔

خود احتسابی: روزانہ اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور یہ سوچیں کہ کیا میں نے آج کوئی ایسا کام کیا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث بن سکتا ہے؟

دعا اور توبہ: اللہ سے ہدایت، قوت اور گناہوں سے بچنے کی دعا مانگیں۔ گناہوں پر نادم ہوں اور توبہ کریں۔

اللہ ہمیں روز محشر کی اس عظیم رسوائی سے بچائے جب ہمارے اعمال نامے کھولے جائیں گے اور ہمارے اپنے اعضاء ہمارے خلاف گواہی دیں گے۔ یہ لمحہ یقیناً انتہائی خوفناک ہوگا۔ اللہ ہمیں اپنے فضل سے اس دن شرمندگی سے محفوظ رکھے، آمین یا رب العالمین۔


حلال کیا ہے حرام کیا ہے؟

سورة قريش

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *