اولاد کی معذوری پر صبر
اللہ کی رضا اور آخرت کا انعام
اولاد کی معذوری ایک ایسا امتحان ہے جو والدین کے لیے گہرے صبر، ایمان اور اللہ پر توکل کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی آزمائش ہے جو دلوں کو ٹٹولتی ہے، رشتوں کی مضبوطی کو پرکھتی ہے، اور بندے کو اپنے خالق سے مزید قریب کرتی ہے۔ یہ صرف ایک ذاتی غم یا پریشانی نہیں، بلکہ ایک ایسا موقع ہے جس میں انسان اپنی بندگی کا اعلیٰ ترین مظاہرہ کر سکتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس موضوع کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ نہیں آزماتا، اور ہر آزمائش کے پیچھے اس کی کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے جو ہمارے محدود علم سے بادی النظر میں اوجھل ہوتی ہے۔
ابوبکر الوراق کا واقعہ: ایک سبق آموز مثال
ابوبکر الوراق کا واقعہ، جسے آپ نے بیان کیا، اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ ان کی بیٹی کا ذہنی توازن درست نہ ہونا اور ان کی یہ خواہش کہ وہ فوت ہو جائے، ایک انسانی فطری کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک باپ کی حیثیت سے وہ اپنی بیٹی کی تکلیف اور شاید اپنی بے بسی دیکھ کر پریشان تھے، اور اس تکلیف سے نجات کی خواہش کر بیٹھے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایسی خواہشات بعض اوقات شدت غم یا ذہنی دباؤ کے عالم میں انسان کے دل میں پیدا ہو جاتی ہیں، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی نیتوں کو بہتر جانتا ہے۔
تاہم، خواب میں بیٹی کا یہ کہنا کہ “آپ میرے مرنے کی خواہش کرتے تھے”، اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہماری ہر چھوٹی سے چھوٹی نیت اور خواہش کا بھی آخرت میں حساب ہوگا۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور فیصلے ہماری خواہشات سے کہیں زیادہ بہتر اور حکمت پر مبنی ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کس کو کیا دینا ہے اور کب واپس لینا ہے۔ اس بچی کی زندگی، چاہے وہ کتنی ہی مختصر کیوں نہ رہی ہو، شاید اس کے والدین کے لیے ایک ایسا ذریعہ بننی تھی جس سے انہیں آخرت میں عظیم اجر ملتا۔
صبر: قرآن و سنت کی روشنی میں
صبر دین اسلام کا ایک بنیادی ستون ہے۔ یہ صرف خاموشی سے برداشت کرنے کا نام نہیں، بلکہ اللہ کے فیصلوں پر مکمل رضا مندی، اس کے اجر کی امید رکھنا، اور شکایت سے بچنا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر صبر کرنے والوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے
“اور ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک، مالوں، جانوں اور پھلوں کی کمی سے ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔ وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں: ‘إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ’ (بے شک ہم اللہ ہی کے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں)۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے درود (رحمتیں) ہیں اور رحمت اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔” (سورۃ البقرہ: 155-157)
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ آزمائشیں زندگی کا حصہ ہیں، اور ان پر صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ اولاد کی معذوری جیسی آزمائش درحقیقت والدین کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے کہ وہ اس آیت کے مصداق بن سکیں اور اللہ کی رضا حاصل کر سکیں۔
احادیث نبوی ﷺ میں صبر کی اہمیت
گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “مسلمان کو کوئی کانٹا بھی چبھے یا اس سے زیادہ تکلیف پہنچے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے، جیسے درخت اپنے پتے جھاڑ دیتا ہے۔” (صحیح بخاری، صحیح مسلم) یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اولاد کی معذوری پر صبر کرنا نہ صرف والدین کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے بلکہ ان کے درجات کو بھی بلند کرتا ہے۔
عظیم اجر کا وعدہ: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “جس بندے پر کوئی مصیبت آئے اور وہ اس پر صبر کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کو بہتر بدلہ عطا فرماتا ہے۔” (صحیح مسلم) یہ بہتر بدلہ دنیا و آخرت دونوں میں ہو سکتا ہے۔ دنیا میں سکون قلب، صبر کی توفیق اور لوگوں کی ہمدردی، اور آخرت میں جنت کے بلند درجات اور بے حساب اجر۔
بچوں کا شفاعت کرنا: خاص طور پر ان والدین کے لیے جن کے معذور بچے وفات پا جاتے ہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “جب کسی بندے کے بچے کی روح قبض کی جاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتا ہے: ‘کیا تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کر لی؟’ وہ کہتے ہیں: ‘جی ہاں۔’ اللہ پوچھتا ہے: ‘کیا تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا؟’ وہ کہتے ہیں: ‘جی ہاں۔’ اللہ پوچھتا ہے: ‘تو میرے بندے نے کیا کہا؟’ وہ کہتے ہیں: ‘اس نے تیری حمد کی اور ‘إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ’ کہا۔’ تو اللہ فرماتا ہے: ‘میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام ‘بیت الحمد’ رکھو۔'” (جامع ترمذی) یہ حدیث ان والدین کے لیے بہت بڑی تسلی ہے جو اپنی اولاد کو کھو دیتے ہیں، خواہ وہ معذوری کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو۔
معذور اولاد کی نگہداشت: ایک جہاد اور صدقہ جاریہ
معذور اولاد کی نگہداشت کرنا کسی جہاد سے کم نہیں۔ یہ والدین سے غیر معمولی قربانی، محبت اور وقت کا تقاضا کرتی ہے۔ ان کی ضروریات عام بچوں سے مختلف ہوتی ہیں اور انہیں مسلسل توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانا اللہ کی نظر میں ایک عظیم عمل ہے۔
والدین کے لیے اجر عظیم: جو والدین اپنی معذور اولاد کی دیکھ بھال کرتے ہیں، ان کی ہر تکلیف، ہر نیند سے محرومی، ہر مشکل لمحہ اللہ کے ہاں اجر عظیم کا باعث بنتا ہے۔ یہ ان کے لیے مسلسل صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
آخرت میں اجر کا باعث: یہ ممکن ہے کہ ایسی اولاد والدین کے لیے آخرت میں شفاعت کا ذریعہ بنے۔ ابوبکر الوراق کے خواب میں بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر جنت لے جانے سے انکار اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ان کی خواہش نے اس رشتے کو متاثر کیا تھا۔ لیکن اگر والدین صبر کریں اور اللہ کی رضا پر راضی رہیں، تو یہی اولاد ان کے لیے جنت کا راستہ ہموار کر سکتی ہے۔
ذہن سازی اور تربیت: والدین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ بچے بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور ان کے حقوق ہیں۔ انہیں محبت، شفقت اور بہترین ممکنہ دیکھ بھال فراہم کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری انہیں نفسانی خواہشات اور دنیاوی لذتوں سے دور کر کے اللہ کی رضا کی طرف مائل کرتی ہے۔
اللہ کی حکمت اور رضا کا مفہوم
اللہ تعالیٰ کی حکمت لامحدود ہے۔ ہم اپنی محدود عقل سے یہ نہیں سمجھ سکتے کہ اس نے کسی کو معذور کیوں پیدا کیا یا کسی کو اولاد کی آزمائش میں کیوں ڈالا۔ یہ سب اس کی تقدیر کا حصہ ہے اور اس کی ہر تقدیر کے پیچھے کوئی نہ کوئی بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔
رضا کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کے ہر فیصلے پر دل سے راضی ہو جائے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان دکھ یا تکلیف محسوس نہ کرے، کیونکہ انسانی فطرت میں یہ چیزیں شامل ہیں۔ رضا کا مطلب یہ ہے کہ دکھ کے باوجود زبان سے شکایت نہ نکالے، دل میں کڑھن نہ رکھے، اور اللہ کے فیصلے کو بہترین تسلیم کرے۔
جب انسان اللہ کی رضا پر راضی ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اللہ بندے پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے اور اس کے لیے آسانیاں پیدا فرما دیتا ہے، حتیٰ کہ وہ اس آزمائش میں بھی سکون اور اطمینان محسوس کرنے لگتا ہے جسے پہلے وہ بوجھ سمجھ رہا تھا۔
عملی اقدامات اور مثبت سوچ
اولاد کی معذوری کی صورت میں والدین کو نہ صرف صبر کرنا چاہیے بلکہ عملی اقدامات بھی کرنے چاہئیں
اللہ پر توکل اور دعا: سب سے پہلے اور سب سے اہم یہ کہ اللہ پر مکمل توکل کیا جائے اور اس سے دعا کی جائے کہ وہ اس آزمائش میں صبر کی توفیق دے اور اجر عظیم عطا کرے۔
بہترین علاج اور دیکھ بھال: اگر ممکن ہو تو معذور بچے کا بہترین علاج اور نگہداشت فراہم کی جائے۔ اس کی ضرورتوں کو سمجھا جائے اور انہیں پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔
معاشرتی سپورٹ: ایسے والدین کو معاشرتی اور جذباتی سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاندان، دوست احباب اور دینی حلقوں کو ان کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور انہیں ہر ممکن مدد فراہم کرنی چاہیے۔
علم دین کا حصول: علم دین حاصل کرنے سے صبر اور اللہ کی رضا پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات اس مشکل وقت میں رہنما کا کردار ادا کرتی ہیں۔
مثبت رویہ: مثبت سوچ اپنائی جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اگر یہ آزمائش دی ہے تو اس میں کوئی بہتری ضرور ہوگی۔ یہ بچہ نہ صرف آخرت میں نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے بلکہ والدین کی تربیت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
خلاصہ
اولاد کی معذوری پر صبر کرنا ایک عظیم قربانی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بڑا امتحان ہے۔ ابوبکر الوراق کا واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری نیتیں بھی اہم ہیں اور اللہ کی حکمت ہماری سوچ سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ صبر، اللہ کی رضا پر راضی رہنا، اور معذور اولاد کی بہترین نگہداشت کرنا والدین کے لیے دنیا و آخرت میں کامیابی کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ آزمائش نہ صرف گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے بلکہ آخرت میں والدین کے لیے شفاعت اور جنت میں ایک بہترین مقام کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اس لیے ہر مشکل میں اللہ کی طرف رجوع کرنا اور اس کے فیصلوں پر یقین رکھنا ہی حقیقی کامیابی ہے۔