اولیاء کرام کا عرس
اولیاء کرام کا عرس: حقیقت، روحانیت اور فیض کا سرچشمہ ✨🙏🏻☝🏻🔥
“اولیاء کرام کا عرس منانے کی کیا حیثیت ہے؟” یہ ایک ایسا سوال ہے جو آج بھی بہت سے دلوں میں اٹھتا ہے۔ آئیے، آج ہم اس کے حقیقی مفہوم کو علمِ معرفت، تصوف، روحانیت، قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھیں، تاکہ یہ بات سیدھی دل میں اتر جائے۔
میں خوب جانتا ہوں کہ آج کل عرس کے نام پر جو کچھ بے ہودگی اور بد نظمی ہو رہی ہے، وہ اس کے اصل مقصد سے یکسر مختلف ہے۔ یہ محض چند لوگوں کی ذاتی بدعات اور کج روی ہے جو اس عظیم روحانی رسم کو بدنام کر رہی ہیں۔ میں آپ کو عرس کی اصل حقیقت اور اس کے حقیقی مقاصد سے متعارف کروانا چاہتا ہوں۔
“عرس” کیا ہے؟
“عرس” عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں “وصال” یعنی ملاقات، یا محبوب سے ملنے کا دن۔ جب کوئی ولی کامل اس دنیا سے پردہ کرتا ہے، تو بظاہر یہ ان کی جسمانی موت ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ان کا اللہ تبارک و تعالیٰ سے وصال کا دن ہوتا ہے۔ جیسے ایک سچا عاشق اپنے محبوب سے ملنے کے دن کو جشن کی طرح مناتا ہے، بالکل اسی طرح صوفی اور سالک، اولیاء اللہ کے یومِ وصال کو “عرس” کے طور پر محبت، یاد، اور روحانی فیض کے حصول کے لیے مناتے ہیں۔ یہ دن ان کے لیے جشنِ وصل کا دن ہوتا ہے، جب وہ اپنے رب کے ساتھ ہمیشگی کا تعلق جوڑتے ہیں۔
قرآن کی نظر میں اولیاء کا مقام
اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿ أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴾
(سورہ یونس: 62)
“خبردار! بے شک اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔”
یہ آیتِ مبارکہ واضح کرتی ہے کہ اولیاء اللہ کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک خاص مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے۔ ان کی زندگی بھی ہمارے لیے برکت کا باعث ہے اور ان کا وصال بھی۔ ان کی یاد اور ان سے روحانی نسبت ہمارے دلوں کی پاکیزگی اور سکون کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ ہمیں سچے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
سنتِ رسول ﷺ کی روشنی میں ذکرِ صالحین
حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
“اذكروا محاسن موتاكم”
(مسند احمد، حدیث حسن)
“اپنے فوت شدہ لوگوں کی خوبیوں کو یاد کرو۔”
اولیاء اللہ کو یاد کرنا، ان کی پاکیزہ سیرت اور اعلیٰ تعلیمات کو بیان کرنا، اور ان کے روحانی فیض سے مستفید ہونا درحقیقت سنتِ رسول ﷺ کے عین مطابق ہے۔ یہ عمل ہمیں نیک اور صالحین کے نقشِ قدم پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے اور ہمارے ایمان کو مضبوطی عطا کرتا ہے۔ ان کا ذکر ہمیں نیکی کی طرف راغب کرتا ہے۔
تصوف اور روحانیت میں عرس کا مقام
تصوف کے مطابق، جب کوئی ولی اللہ کی ذات میں فنا ہو کر واصل باللہ ہوتا ہے، تو وہ دن روحانیت کا نقطہ عروج ہوتا ہے۔ اس مبارک دن ان کے مزارات سے خاص لطیف روحانی انوار، باطنی فیضان، اور رحمت کی توجہات کثرت سے نازل ہوتی ہیں۔ عرس میں محض حاضری دینا ایک رسم نہیں، بلکہ یہ روحانی تعلق کی تجدید، قلبی سکون کا حصول، اور باطنی ترقی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ سالک کو اپنے مرشد سے اور مرشد کے ذریعے اللہ سے مزید قریب کرتا ہے، اور اس کے دل کی آنکھیں کھولتا ہے۔
ایک سادہ مثال سے عرس کا مفہوم
اس بات کو یوں سمجھیں کہ جب کوئی بڑا استاد، رہنما یا محسن اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے، تو اس کے شاگرد اور چاہنے والے اس کی یاد میں محافل کا انعقاد کرتے ہیں۔ وہ اس کی علمی اور عملی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور اس کی تعلیمات کو عام کرتے ہیں۔ یہ ان کے استاد کی رہنمائی اور عطاء کردہ فیض کا اعتراف ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح، اولیاء اللہ ہماری روحانی تربیت کے عظیم استاد ہیں، اور ان کا عرس منانا ان کے احترام، ان کے فیض کا اعتراف اور ان سے بے پناہ روحانی محبت کا گہرا اظہار ہے۔
عرس کے حقیقی اور پاکیزہ مقاصد
عرس کا بنیادی مقصد محض ایک میلہ لگانا نہیں، بلکہ یہ مندرجہ ذیل عظیم مقاصد کا حامل ہے:
تعلیماتِ ولی کا احیاء: اللہ کے ولی کی پاکیزہ زندگی اور ان کی اعلیٰ تعلیمات کو یاد کرنا، ان پر عمل کرنے کی ترغیب دینا اور انہیں عام کرنا۔
روحانی فیض کا حصول: ان کی محافل سے روحانی فیض حاصل کرنا اور اپنے دلوں کو نورِ الٰہی سے منور کرنا۔
قلبی مضبوطی: اپنے دلوں کو روحانیت اور ایمان کی قوت سے مضبوط کرنا، تاکہ وہ دنیاوی فتنوں سے محفوظ رہ سکیں۔
تعلق باللہ میں ترقی: اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مزید گہرا کرنا اور اس کی بے پناہ محبت میں اضافہ کرنا۔
محبتِ رسول ﷺ اور معرفتِ الٰہی: یہ محافل ہمیں رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت اور معرفتِ الٰہی کے راستے پر گامزن کرتی ہیں۔
دل کی بات: فنا فی اللہ کا درس
ولی وہ ہستی ہوتی ہے جو اپنی ہستی کو اللہ کی ذات میں فنا کر کے اس میں باقی ہو چکی ہوتی ہے۔ ان کا عرس ہمیں یہ گہرا اور حیات بخش درس دیتا ہے کہ:
“مر کے بھی جو زندہ ہے، وہی حقیقت میں زندہ ہے۔”
“جو اللہ میں کھو جائے، وہی خود کو پا لیتا ہے۔”
لہٰذا، عرس محض کوئی رسم یا میلہ نہیں، یہ ایک ایسی روحانی مجلس ہے جہاں دلوں کو سکون ملتا ہے، روح کو غذا ملتی ہے، اور اللہ کی حقیقی محبت نصیب ہوتی ہے۔ یہ مقامِ بَاطِن سے تعلق قائم کرنے کا ایک ذریعہ ہے، جہاں بظاہر نظر نہ آنے والے حقائق کا ادراک ہوتا ہے۔
اللہ ہمیں اپنے اولیاء کی سچی محبت نصیب فرمائے اور ان کے فیض سے ہمارے دلوں کو روشن فرمائے۔ آمین۔
علمِ معرفت، تصوف، اور عشقِ حقیقی کا سفر
کیا آپ حقیقت کی تلاش میں ہیں؟
کیا آپ کا دل دنیا کے شور اور بے چینی سے اکتا چکا ہے؟
کیا آپ اللہ سے سچا تعلق، مرشدِ کامل کی پہچان، اور دل کی صفائی چاہتے ہیں؟
تو پھر یہ روحانی قافلہ آپ ہی کے لیے ہے۔ یہاں ہر سوال کا جواب روحانیت، قرآن، حدیث، اور اولیاء اللہ کے اقوال کی روشنی میں دیا جاتا ہے۔ یہاں صرف گفتگو نہیں ہوتی، بلکہ حال منتقل ہوتا ہے، عشقِ الٰہی جاگتا ہے، اور دل بدل جاتے ہیں۔
🕊️ یہاں وہ ملتا ہے جو کتابوں میں نہیں ملتا،
❤️ یہاں وہ سمجھایا جاتا ہے جو دلوں کو سکون دیتا ہے،
🔮 یہاں ہر وہ سالک آتا ہے جسے حق کی سچی طلب ہوتی ہے۔