اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے

اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے

اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے

 سخاوت، عزت اور خودداری کی پہچان

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد انسان کو فلاح و کامیابی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، اور اس راہ میں ایک اہم اصول سخاوت، خودداری اور دوسروں کی مدد ہے۔ یہی وہ خوبی ہے جس کی نشاندہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک مشہور ارشاد میں فرمائی ہے: “اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔” (صحیح بخاری)

اس حدیث مبارکہ کا مفہوم انتہائی گہرا اور وسیع ہے۔ “اوپر والا ہاتھ” سے مراد وہ ہاتھ ہے جو دیتا ہے، جو خرچ کرتا ہے، جو دوسروں کی مدد کرتا ہے۔ اور “نیچے والا ہاتھ” سے مراد وہ ہاتھ ہے جو لیتا ہے، جو مانگتا ہے، جو دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔ یہ حدیث صرف مالی امداد تک محدود نہیں بلکہ اس میں ہر قسم کی نیکی، احسان اور خدمت شامل ہے۔

سخاوت کی فضیلت: قرآنی نقطہ نظر

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سخاوت اور انفاق فی سبیل اللہ کی بے شمار فضیلتیں بیان کی ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے:

“جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس نے سات بالیاں اگائیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ اور اللہ جسے چاہتا ہے بڑھا چڑھا کر دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا، جاننے والا ہے۔” (سورۃ البقرہ: 261)

یہ آیت سخاوت کرنے والے کو کثیر اجر کی بشارت دیتی ہے۔ ایک روپیہ جو اللہ کی راہ میں دیا جائے، وہ کئی گنا بڑھا کر واپس ملتا ہے، نہ صرف آخرت میں بلکہ بعض اوقات دنیا میں بھی۔ سخاوت دل کو وسیع کرتی ہے اور مال میں برکت پیدا کرتی ہے۔

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ دینے والا ہاتھ ہی اللہ کو زیادہ پسند ہے۔ وہ لوگ جو اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں، انہیں “محسنین” (نیکی کرنے والے) اور “متقین” (پرہیزگار) کا لقب دیا گیا ہے۔

احادیث کی روشنی میں “اوپر والا ہاتھ” کی برتری

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی متعدد احادیث میں اس بات کو واضح کیا کہ دینے والا ہاتھ کس طرح فضیلت کا حامل ہے۔

عزت اور خودداری: دینے والے ہاتھ میں عزت اور خودداری ہوتی ہے۔ وہ شخص جو اپنی محنت سے کماتا ہے اور پھر دوسروں پر خرچ کرتا ہے، وہ ایک باوقار مقام حاصل کرتا ہے۔ اس کے برعکس، مانگنے والا ہاتھ بعض اوقات اپنی عزت نفس کھو دیتا ہے اور دوسروں کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

رحمت اور برکت: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “صدقہ دو، اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ بے شک یہ محتاجوں کی بھوک کو بجھاتا ہے اور گناہوں کو اس طرح بجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔” (ترمذی)

اللہ کی مدد: جو شخص دوسروں کی مدد کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ اس بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔” (صحیح مسلم) یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دینے والا ہاتھ ہمیشہ اللہ کی حفاظت اور مدد میں رہتا ہے۔

واقعات اور حکایات

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایثار:

جنگ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے صدقے کی اپیل کی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: “اے ابوبکر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟” انہوں نے جواب دیا: “اللہ اور اس کا رسول!” یہ “اوپر والے ہاتھ” کی عظیم ترین مثال تھی، جہاں انہوں نے اپنی تمام تر دولت اللہ کی راہ میں قربان کر دی۔

. ایک صحابی کا قرض اور قرض خواہ کا ایثار:

ایک صحابی پر کسی کا قرض تھا اور وہ ادا نہیں کر پا رہے تھے۔ قرض خواہ نے انہیں پریشان کرنا شروع کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے صحابہ کرام سے ان کی مدد کرنے کی اپیل کی۔ ایک صحابی نے آگے بڑھ کر اپنی جائیداد سے ایک حصہ فروخت کر کے اس قرض کی ادائیگی کی۔ یہ بھی “اوپر والے ہاتھ” کی مثال ہے جس نے ایک بھائی کی مشکل آسان کی۔

. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خودداری:

ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیت المال سے کچھ مال آیا۔ آپ نے وہ مال تقسیم کر دیا، لیکن خود کچھ نہیں لیا۔ کسی نے عرض کیا: “اے امیر المومنین! آپ بھی کچھ لے لیتے!” آپ نے فرمایا: “میں خود دینے والا ہاتھ بننا چاہتا ہوں، لینے والا نہیں۔” یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دینے والے ہاتھ میں کس قدر عزت اور وقار ہوتا ہے۔

. ایک فقیر کا سبق:

ایک دفعہ ایک فقیر ایک سخی شخص کے پاس آیا اور کچھ مانگا۔ سخی شخص نے اسے کچھ دینے کے بعد کہا: “میں چاہتا ہوں کہ تم ہمیشہ لینے والے ہاتھ نہ رہو، بلکہ دینے والے ہاتھ بنو۔ اس کے لیے محنت کرو، کوئی ہنر سیکھو۔” اس فقیر نے اس بات کو پلے باندھ لیا اور محنت سے کام کر کے نہ صرف اپنی غربت دور کی بلکہ بعد میں خود دوسروں کی مدد کرنے والا بن گیا۔

اوپر والا ہاتھ کیوں بہتر ہے؟

 اللہ کی رضا: دینے والے ہاتھ کو اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ پاک دینے والے کو پسند کرتا ہے اور اس کے اجر میں اضافہ کرتا ہے۔

 نفسیاتی سکون اور اطمینان: دوسروں کی مدد کرنے سے جو سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے، وہ کسی اور چیز سے نہیں مل سکتا۔ یہ ایک روحانی خوشی ہے جو روح کو پاک کرتی ہے۔

 معاشرتی ہم آہنگی: سخاوت معاشرے میں محبت، بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں تو معاشرہ مضبوط ہوتا ہے اور کسی کو بھی احساس محرومی نہیں ہوتا۔

 برکت اور اضافہ: اللہ تعالیٰ دینے والے کے مال میں برکت ڈالتا ہے۔ یہ برکت صرف مقدار میں نہیں ہوتی بلکہ کیفیت میں بھی ہوتی ہے۔ ایک تھوڑا سا مال بھی اگر اللہ کی راہ میں دیا جائے تو اس سے کئی گنا زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

 خودداری اور وقار: جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، دینے والے ہاتھ میں خودداری اور وقار ہوتا ہے۔ اسے کسی کے سامنے جھکنا نہیں پڑتا اور وہ اپنی محنت سے کماتا ہے اور اس میں سے دوسروں پر خرچ کرتا ہے۔

خلاصہ

“اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے” کا یہ زریں اصول اسلام کی سخاوت اور خودداری کی اعلیٰ اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے والا، خرچ کرنے والا اور نیکی کی راہ میں آگے بڑھنے والا ہونا چاہیے۔ یہ نہ صرف ہماری دنیا کو بہتر بناتا ہے بلکہ ہماری آخرت کو بھی سنوارتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق دوسروں کی مدد کریں، کیونکہ دینے والا ہاتھ ہی اصل میں کمال حاصل کرتا ہے اور اللہ کی رحمتوں کا مستحق ٹھہرتا ہے۔


دنیا اور آخرت کی مثال

سورة الزخرف

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *