بچہ ذرا بڑا ہوتا ہے تو کہانیوں میں دلچسپی لینے لگتا ہے دیڑ دو برس کے بچے بھی چھوٹی چھوٹی کہانیاں بڑے غور اور دلچسپی سے سنتے ۔۔ ان کے چہرے کے تاثرات اور توتلی زبان میں چھوٹے چھوٹے سوالات ان کی اس دلچسپی کو بخوبی واضح کرتی ہے۔۔
کہانیوں میں بچوں کے فہم اور دلچسپی کوپیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ ہر کہانی اپنے اندر ایک پیغام رکھتی ہے بچے کہانیوں کے ذریعے اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کہانی خود بخود بچوں کے جذبے اور جستجو کی تسکین کرتی ہے۔۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ کہانیاں رجحان ساز ہوتی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔۔ ابتدا ہی سے با مقصد کہانیاں سننے والے بچے اپنی ائندہ زندگی کسی مقصد کے تحت گزارنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔۔۔ بچے کو قرآنی قصص سناتے ہوئے بتایا جائیے کہ یہ قرآن میں سے لی گئی کہانی ہے تو قرآن پاک پڑھنے کا شوق اور جستجو پیدا ہوگا۔۔
انبیاء علیہ الصلاۃ والسلام کی کہانیاں سن کران سے محبت اور عقیدت پیدا ہوتی ہے۔۔ یوںکردار سازی میں کہانیاں کا اپنا اہم کردار ہے۔۔۔
کہانی کی اس اہمیت کو ہر دور میں سمجھاگیا ہے۔۔ چنانچہ زمانے قدیم سے بچوں کو کہانیاں سنانے اور ان کے لیے لکھنے کا رواج چلا آرہا ہے۔۔ چھوٹے بچوں کو کہانیاں سننے سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔۔ بچے تو پڑھنا تو بہت بعد میں شروع کرتے ہیں جہاں ماں، دادی، نانی، یا کوئی اور بزرگ ،یا اہم ذمے داری انجام دیتے ہیں وہاں نسلوں کی دوری کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔۔ کہاںی سنانے والے سے بچوں کو ایک ذہنی اور جذباتی وابستگی پیدا ہو جاتی ہے۔۔ اس میں بغاوت اور نافرمانی کے جراثم پرورش نہیں پاتے۔۔ یوں گھر کا ماحول خوشگوار رکھنے میں بھی کہانی کا کردار بڑا اہم ہے۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی تربیت میں اعادے اور تکرار کی جانب رہنمائی فرمائی ہے۔۔ اہم امور کے معاملات میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات کو کوئی مرتبہ دہراتے تھے۔۔حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ دس سال تک شبانہ روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہے اور بچپن کا اہم حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ ترتیب میں گزارا حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی بات فرماتے تو اسے تین مرتبہ دہراتے تاکہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے
بچے مختلف عادات تکراراوراعادے کو دیکھ کراختیار کرتا ہے۔۔ دیکھا گیا ہے کہ جن گھروں میں چیخ کربات کی جاتی ہےعموما وہاں بچے بھی اسی طرح بولنے کے عادی ہو جاتے ہیں ۔۔ جن گھروں میں بچے اپنے بڑوں کی نیکی ایثاراورقربانی کے پیکردیکھتے ہیں وہ خود بھی مومن یہی عادات اختیارکر لیتے ہیں۔۔
بچوں کو علم سکھانے کے ساتھ ساتھ عمل بھی کروائیں
تعلیم اورتربیت اس وقت بہترین اور تیز رفتار ثابت ہوتی ہے جب بچہ عملا اس کام میں شریک ہو جس کی تعلیم کی گئی ہے۔۔ اور تعلیم و تربیت کے عملی تقاضوں کو بنفس نفیس عملا انجام دیتا ہو۔۔اس بات کو اس طرح سمجھا سکتے ہیں کہ ایک انجینیئر محض کتابیں پڑھ کر ہنرنہیں سیکھ سکتا بلکہ اسے کسی کی رہنمائی میں یا ورکشاپ میں اترنا پڑتا ہے۔۔ یا کوئی شخص صرف میڈیکل کی کتابیں پڑھ کر سرجن نہیں بن سکتا بلکہ اسے آپریشن تھیٹر میں اس علم کو عمل کا جامہ پہنانا پڑتا ہے۔۔
بچے کی عادات کی بہتری میں بھی یہ بات اس طرح صادق آتی ہے کہ بچے کوجو کچھ اچھی باتیں بتائی جائے ضروری ہے کہ ان پر اس کوعمل بھی کروایا جائے۔۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس جانب خصوص توجہ دی کے نئی نسل کی تعلیم کے ساتھ عملی مشق کی بھی عادت ڈالی جائی
ایک صحابی کلاہ بن حنبل کہتے ہیں کہ ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا لیکن میں نے سلام نہیں کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا واپس لوٹ جاؤ پہلے السلام علیکم کہو پھر پوچھو کیا میں اندر داخل ہو سکتا ہوں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف بتانے پر اتفاق نہیں کیا بلکہ انہیں جو چیز سکھانا چاہتے تھے اسے عمل بھی کروایا بھی۔۔