اچھے لوگ کسی پر لعنت نہیں بھیجا کرتے ہیں

اچھے لوگ کسی پر لعنت نہیں بھیجا کرتے ہیں اچھے لوگ کسی پر لعنت نہیں بھیجا کرتے ہیں

اچھے لوگ کسی پر لعنت نہیں بھیجا کرتے ہیں

وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا ينبغي لصديق أن يكون لعانا

رواه مسلم

ترجمہ :حضرات ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدیق کے لیے یہ جائزمناسب نہیں ہے کہ وہ بہت زیادہ لعنت کرنے والا ہو۔

تفصیل

الصدیق” جس شخص کے  قول وہ فعل میں  تضاد نہ ہو اور نبی کے قول کو دلیل وہ حجت کے بغیر مان لے وہ صدیق کہلاتا ہے۔ نبی کے بعد صدیق کا درجہ ہوتا ہے زیر بحث حدیث میں بتایا گیا ہے کہ صدیق کی شایان شان نہیں کہ وہ لوگوں پر لعنتیں بھیجا کریں کیوں کہ لعنت کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ شخص دعا کر رہا ہے کہ یا اللہ اس شخص کو اپنی رحمت سے دور کر دو ،اس طرح بددعا کرنا بہت ہی نامناسب اور بڑا بخل ہے کہ اللہ تعالی کی وسیع رحمت سے ایک شخص کو نکالنے کی کوشش کر رہا ہے حالانکہ اس کو چاہیے تھا کہ اللہ تعالی کی رحمت میں لانے کی دعا کرتا۔

لعنت کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ لعنت بھیجنے والا خبر دے رہا ہے کہ فلاں شخص اللہ تعالی کی رحمت سے خارج ہو چکا ہے یہ بھی بڑا جرم ہے کیوں کہ یہ شخص غیب کی بات کر رہا ہے اس کو کیا معلوم کہ فلاں شخص اللہ تعالی کی رحمت سے خارج ہو گیا ہے ہاں اگر کوئی شخص کفر پر مرا ہے تو اس پر لعنت ارسال کرنا جائز ہے مگر فرض اور ضروری وہ بھی نہیں ہے۔

لعنت کی دو قسمیں ہیں

لعانا“لعنت کی دو قسمیں ہیں ایک قسم کفر کے ساتھ خاص ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالی کی رحمت سے بالکل نکل جائے اور رحمت سے دور ہو جائے اور رحمت سے بالکل مایوس ہو جائے اس مفہوم کی لعنت کا تعلق صرف کفار سے ہے اس طرح لعنت کسی مسلمان پر بھیجنا حرام ہے۔

لعنت کا دوسرا مفہوم

لعنت کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص مثلا اللہ تعالی کی رضا سے دور ہو جائے اس کے قرب سے دور ہو جائے اس طرح لعنت کی نسبت اور اس کی بددعا اس مسلمان کے لیے ہو سکتی ہے جو کسی نامناسب کام کا ارتکاب کرتا ہے۔

صحابہ کرام یا علماء و اولیاء کے کلام میں اگر لعنت کا ذکر آیا ہے تو اس سے لعنت کی یہی قسم مراد ہے علماء نے لکھا ہے کہ مرنے کے بعد کسی پر لعنت بھیجنا اس کے کفر پر متفرع ہے اگر وہ یقینی طور پر کفر پر مرا ہے تو لعنت بھیجنا ممکن اور جائز ہے اگرچہ فرض وہ ضروری نہیں ہے۔ لیکن اگر اس کی موت یقینی طور پر کفر پر نہیں آئی تو اس پر مرنے کے بعد لعنت نہیں بھیجی جا سکتی ہے      ۔

کسی کی طرف اخروی ہلاکت کی نسبت نہ کرو

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قال الرجل هلك الناس فهو أهلكهم

ترجمہ “حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ لوگ ہلاک ہوئے یعنی جہنم کی اگ کے مستو جب ہو گئے تو اس طرح کہنے والا سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے۔

تفصیل

هلك الناس “یعنی جس شخص نے کہا کہ سارے لوگ ہلاک ہو گئے تو درحقیقت وہ خود سب سے بڑھ کر ہلاک شدہ ہے کیوں کہ یہ شخص دوسروں کے عیب جوئی میں مشغول ہے اور اپنی بھلائیوں کو دیکھ رہا ہے اس طرح یہ خود پسندی میں مبتلا ہے اور دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھ کر ایسا کہتا ہے لہذا یہ سب سے زیادہ ہلاک شدہ ہے کیوں کہ اس کو دوسروں کی ہمدردی مقصود نہیں اور ان کی حال زار پر کوئی افسوس نہیں اور نہ کوئی غم اور خیر خواہی ہے صرف ان کو مایوس کرنا ذلیل کرنا حقیر سمجھنا مقصود ہے ہاں اگر ان کی ہدایت کی فکر ہے ان کی خیر خواہی مقصود ہے اور ان کی حالت زار پر افسوس کرنا مقصود ہے اور ایک درد کا اظہار ہے تو اس صورت میں اس طرح کہنا منع نہیں ہوگا۔


  حجاب کا مزاق

سورة الرعد

One thought on “اچھے لوگ کسی پر لعنت نہیں بھیجا کرتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *