ایک ایماندار موچی کا واقعہ

ایک ایماندار موچی کا واقعہ ایک ایماندار موچی کا واقعہ

ایک ایماندار موچی کا واقعہ

ایک ایماندارموچی کا واقعہ

  ایک گاؤں میں ایک غریب ادمی تھا اس کا نام اسلم تھا وہ غریب ادمی تھا مگر اس میں لالچ نام کو بھی موجود نہ تھی، اسے علم تھا کہ گاؤں کے لوگوں کی امدنی زیادہ نہیں ہوتی اور وہ بڑی مشکل سے اپنی زندگی گزر بسر کرتے ہیں۔۔

  اسلم نے دیکھا اس نے جو جوتے پہنے ہوئے تھے وہ انتہائی بدنما اور خستہ تھے۔۔

 اسلم نے خاموشی سے وہ تھیلا اٹھایا جس میں کریم مرمت کروانے کے لیے جوتے لایا تھا’’ یہ جوتے بھی نہایت خستہ حالت میں تھے اور اوپر کا چمڑا پرانا ہو گیا تھا، مگر پھٹا نہیں تھا –  اسلم نے انہیں پلٹ کر دیکھا تو دونوں جوتوں کے تلے پھٹے ہوئے تھے۔۔

 اسلم کے تجربے کار انگلیوں نے جوتوں کے چمڑے کو چھو کر اندازہ کر لیا تھا کہ یہ ہرن کی کھال کے بنے ہوئے تھے جو نہایت نرم مضبوط اور ہلکی ہوتی ہے۔۔ دوسری بات جو اسلم نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ ہرن کی کھال کے بنے ہوئے جوتے اگرچہ ہلکے پھلکے ہوتے ہیں مگر یہ جوتے اسے کچھ زیادہ ہی وزنی لگے اس نے اس بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔۔

 جب کریم نے اسلم کوپریشان دیکھا تو وہ خود پریشان ہو گیا اس کو یہ ڈر تھا کہ اتنا خراب جوتے دیکھ کراسلم  ان کی مرمت سے انکار نہ کر دے اس لیے وہ بڑے لجاجت سے بولا۔۔  

بھائی اسلم جوتے بہت پرانے ہیں ان کو میں نے گھر میں  پرانے سامان سے نکالا ہے یہ جوتے میرے دادا کے تھے اور کسی زمانے میں بہت اچھی حالت میں تھے دادا کے انتعال کے بعد میں میرے ابا نے بہن بہن کر ان کا یہ حال کر دیا۔۔ اگر بیٹی کی بات پکی ہونے کی تقریب نہ ہوتی تو میں کبھی بھی ایسے پھٹے پرانے جوتے لے کر تمہارے پاس نہیں اتا بس یہ سمجھ لو عزت کا معاملہ ہے۔۔

اسلم اس کی بات سن کراداس ہو گیا اس نے کہا یہ جوتے ہرن کی کھال کے بنے ہوئے ہیں اور ہرن کی کھال کے جوتے بہت قیمتی ہوتے ہیں تمہارے دادا تو کافی پیسے والے ہوں گے کریم  نے بڑے فخر سے کہا وہ بہت بڑے زمیندار تھے، اس گاؤں کے بہت سی زمینیں انہی کی ملکیت تھی ان کے مرنے کے بعد میرے باپ نے ساری زمینیں بیچ کر ان کے پیسے اپنے دوستوں پر اڑا دیئے ۔۔

اگر وہ سنبھل کر چلتے تو ہمارا یہ حال نہ ہوتا اس کی شرمندگی محسوس کر کے اسلم نے اس کی تسلی کے لیے کہا تم فکر مت کرو ان جوتوں کو تو میں ایسا کروں گا کہ دیکھنے والا دیکھتا رہ جائے گا اس کی بات سن کر، کریم نے نظریں جھکا کر کہا” اسلم بھائی ایک بات اور ہے ان کی اجرت میں بعد میں دوں گا ابھی تو لڑکے والوں کے کھانے کا بھی انتظام نہیں ہوا ہے۔۔

  اب میں اپنے مالک کے پاس جاؤں گا شاید وہ مجھے کچھ رقم ادھار دے دے اور میں کھانے کا انتظام کر سکوں اسلم نے کہا”’ دیکھو کریم بھائی جیسی تمہاری بیٹی ویسی میری بیٹی تم فکر مت کرنا” آپ کا مالک بھلے تمہیں ادھار دے یا نہ دے میرے پاس چلے انا، میرے پاس کچھ رقم موجود ہے بارش میں چھت ٹپکنے لگتی ہے ان کی مرمت کے لیے میں رقم جمع کر رہا ہوں مرمت تو بعد میں بھی ہو جائے گی ان پیسوں کو تم بس اپنے ہی سمجھو تم ارام سے لڑکے والوں کی دعوت کا انتظام کرنا۔۔۔

اسلم  کی ہمدردی اور محبت بھری باتیں سن کر کریم کا دل ابھر ایا اور اس کی انکھیں نم ہو گئی وہ اسے دعائیں دیتا ہوا رخصت ہوا چونکہ گاؤں کے ایک بیٹی کی شادی کا معاملہ تھا اسی لیے اسلم  نے دوسرے جوتوں کی مرمت کا کام چھوڑا اورکریم کے جوتے لے کر بیٹھ گیا جوتے کے تلے تو بالکل بھی مرمت کے قابل نہ تھے نہ وہ صرف بری طرح گھسے گئے تھے بلکہ بیچ سے دو حصوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔۔۔

اسلم  نے اپنی لکڑی کے صندوق میں سے سب سے مہنگے والے تلے نکالے یہ تلے امیر زمینداروں کے جوتوں میں لگاتا تھا، اس کے بعد وہ اپنا کام میں لگ گیا شام تک جوتے تیار ہو گئے اسلم نے ان پر بہت محنت کی تھی اور وہ بالکل نئے لگ رہے تھے، اس نے اپنی ساری چیزیں لکڑی کے صندوق میں بند کر کے  اور کریم کے جوتوں کا تھیلا اٹھا کرآپنے گھر کی جانب روانہ ہو گیا اسے جوتوں کی مرمت کے دوران اس کے چہرے پر عجیب سے  تاثرات تھے اور دبے دبے جوش کے اثار تھے اور وہ بہت سنجیدہ نظر ارہا تھا اس کے قدم تیزی سے گھر کی جانب بڑھ رہے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتا ہو۔۔

گھر پہنچ کر اس نے جوتوں کا تھیلا ایک طرف رکھا اس کی دونوں بچیاں باہر گلی میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہی تھی بیوی رات کا کھانا پکا رہی تھی اسلم نے اسے اواز دے کر بلایا وہ ائی تواسلم نے اپنی بیوی کو کریم کے جوتے دکھائے اور پھر اسے پاس بٹھا کر چپکے چپکے اس کو کچھ بتانے لگا۔۔ اسلم  کی باتیں سن کر بیوی انکھیں حیرت سے چمکنے لگی تھی اپنی بات ختم کر کے اسلم نے اپنے کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈال کر پرانے کپڑے کے ایک پوٹلی کھول کر بیوی کو دکھائی۔۔

پوٹلی میں بہت سارے چمکتے ہوئے ہیرے اور سونے کی چھوٹی چھوٹی اینٹیں چمک رہی تھی ان کو دیکھ کر بیوی حیران بھی تھی اور خوش بھی اسلم نے کہا اب ہم کریم کے گھر چلیں گے بچیاں باہر کے گلی میں کھیل رہی ہیں تو جو چلہے کی انکھ ہلکی کر دے ہم جلدی واپس اجائیں گے تھوڑی دیر بعد اسلم اپنی بیوی کو لے کر بہادر کے گھر پہنچا۔۔

کریم کا گھر پر ہی مل گیا تھا اور سخت پریشان اور فکر مند نظر ارہا تھا اس نے اسلم اور اس کی بیوی کو عزت سے بٹھایا اس کی بیوی اور بیٹیاں بھی اس کے پاس ا کر بیٹھ گئی تھی جب سب بیٹھ گئے تو کریم نے اسلم کو بتایا کہ اسے مالک نے پیسے دینے سے انکار کر دیا، میری بےعزتی بھی  کی تو ادھار لینے کے لیے ہر وقت منہ اٹھا کر چلا اتا ہے” اسلم نے کہا کریم   اللہ بہت رحیم اور کریم ہے اب تم سب لوگوں کو ایک عجیب و غریب کہانی سناتا ہوں۔۔

یہ کہانی سن کر تم سب بہت خوش ہو جاؤ گے یہ بات سن کر کریم کی بیوی اور بیٹیاں اسے حیرت اور دلچسپی سے دیکھنے لگے اسلم اس کی بیوی  کو تو یہ بات پہلے ہی بتا چکا تھا اس لیے وہ حیران نہیں ہو رہی تھی، کریم کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں ایا تھا وہ منہ کھولے کھولے اسلم کی باتیں سن رہا تھا ان سب کی حیرانی اور پریشانی دیکھ کراسلم کی بیوی مسکرا رہی تھی،اسلم  نے کہنا شروع کیا کریم تمہارے دادا بہت امیر ادمی تھے جب میں نے ان کے جوتوں کو چیر پھاڑ کی تو ان کے ایڑیوں میں سے یہ چیزیں نکلی تھی اس نے کپڑے کی وہی چھوٹی سی پوٹلی نکال کر سر گنڈوں سے بن مونڈوں پر رکھ دی سب حیرانی سے اس پوٹلی کو دیکھ رہے تھے جب بہادر نے وہ پوٹلی کھولی تو اس میں رکھے ہوئے ہیرے اور سونے کی چھوٹی چھوٹی اینٹیں دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔۔۔

اسلم نے وہ پوٹلی اٹھا کرکریم کے حوالے کرتے ہوئے کہا میرا یہ خیال ہے تمہارے دادا نے اس دولت کو چوروں اور ڈاکوؤں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنے جوتوں میں چھپا دیا تھا اتنی ساری دولت سامنے پا کر بہادر کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، وہ پھٹی پھٹی انکھیں سے اس پوٹلی کو دیکھ رہا تھا اس کی بیوی تو اتنی خوش ہوئی کہ چیخ چیخ کر رونے لگی جب تھوڑی دیر بعد ان لوگوں کی حالت سنبھلی تو کریم نے اسلم کے ہاتھ تھام کر رونے لگا، اسلم بھائی تم انسان نہیں فرشتے ہو اس نے کہا تمہارا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔۔

تمہارے جیسا ایماندار ادمی پورے گاؤں میں کوئی دوسرا نہیں ہوگا، کریم میں تو اس بات پر خوش ہوں کہ تمہاری بیٹی کی نصیب سے یہ دولت تمہیں ملی ہے اب تو تم اس گاؤں کی بہت امیر ادمی ہو گئے ہو ان چیزوں کو فروخت کر کے ان سے ملنے والی رقم سے پہلے تو اپنی بیٹی کی شادی کرنا، پھر کوئی اچھا سا کام شروع کر دینا تھوڑی دیر کے بعد اسلم اور اس کی بیوی اپنے گھر جانے کے لیے اٹھ گئے راستے میں اس کی بیوی نے کہا اسلم تجھے یہ ایمانداری کس نے سکھائی ہے تو چاہتا تو اس قیمتی خزانے کو چھپا بھی سکتا تھا، کسی کو کیا پتہ چلتا، ان کو بیچ کر تو گھر کی چھت ٹھیک کروا سکتا تھا، میرے لیے سونے کے زیور بنوا سکتا تھا، ہم اپنی بچیوں کو گاؤں کے نہیں پڑوسی کے قبضے میں کسی اچھے سے اسکول میں داخلہ کروا سکتے تھے، اسلم اس کی بات سن کرہسا اور پھر سینہ تان کر بولا ہمارے گھر کی چھتوں کی مرمت بھی ہو گئی تیرا زیور بھی بنے گا اور ہمارے بچیاں ا اسکول میں نہیں شہر کے اسکول میں پڑھیں پڑھنے جائے گی اور یہ سب میں اپنے ہاتھ کی کمائی ہوئی پیسوں سے کروں گا۔۔

اس کی بات سن کر اس کی بیوی کھل اٹھی اور بولی میں اور میرے دونوں بچیاں بہت خوش نصیب ہیں جو اتنا اچھا شوہر اور بچیوں کا اتنا اچھاباب ملا ہے اپنی تعریف سن کراسلم شرما گیا بیوی سے اس کی شرم کو چھپانے کے لیے جھوٹ موٹ کے غصے سے بولا” ذرا تیز چل مجھے بھوک لگ رہی ہے گھر جاتے ہی کھانا کھاؤں گا بیوی سمجھ گئی تھی کہ اس کی تعریف سے اسلم شرما گیا ہے مسکرایا تیز تیز چلنے لگی۔۔ 

==========================

حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی سیرت

===================

سوره الفلق

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *