ایک عاشق رسول نوجوان تخت نشین کیسا بنا؟

ایک عاشق رسول نوجوان تخت نشین کیسا بنا؟ ایک عاشق رسول نوجوان تخت نشین کیسا بنا؟

ایک عاشق رسول نوجوان تخت نشین کیسا بنا؟

ایک نوجوان تھا یتیم بھی تھا شوق بن گیا  دین پڑھنے کا ۔محلے دار علاقے والے کہنے لگے کہاں سے کمائے گا۔نہ باپ  ہے۔ نہ ماں ہے۔ نہ گھر ہے  ۔حضرت رومی کہتے ہیں ۔یتیم نوجوان نے جنگل میں جھونپڑی لگا لی۔ وہاں وہ صبح مدرسہ جاتا شام کو جنگل میں رہتا ۔وہاں اللہ اللہ کرتا سبق یاد کرتا ۔ایک دن بادشاہ کی بیٹی رستہ بھول گئی  ۔  ایسی کوئی ایسی کھوئی کہ جب رات گہری ہو گئی ۔تو  نوجوان کے پاس رکی ۔شیر کے دھاڑنے کی آواز آتی  بھیڑیے کے  بھوکنے کی آواز آتی  ۔نوجوان اکیلا ۔کہنے لگی میں  پریشان ہوں۔ مجھے  جگہ   ملےگی ۔نوجوان کہتا ہے !میں نے شہزادی دیکھی اور مجھے بھی پتہ تھا کہ گھر ایک ہی ہے اور  رات کو اندر سے دروازہ بھی بند کرنا پڑتا ہے۔ جنگل  میں جانور بھی آجاتے ہیں کہتے ہیں۔ میری چھوٹی سی  چونپڑی میں وہ آئی رو کے کہنے لگی! سہارا کوئی نہیں ہے ۔پھراگر میں پیچھے نکلو گی تو بھیڑیے کھا جائے گیں۔  وہ نوجوان نے اسے جگہ دے دی۔ اکیلی عورت۔   چراغ جل رہا ہے سبق یاد کر رہا ہوں۔ میرے نبی پاک نے فرمایا ۔جہاں مرد عورت اکیلے ہو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔  وہ بچہ   سبق یاد کرتا رہا ساری رات۔ بچی کو کہا سو جا ،پر وہ کہتی ہے! نیند مجھے بھی کہاں آئیےایسے موقع پر،   ساری رات سبق یاد کرتا تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد،، چراغ جلتا تو اس پہ انگلی رکھتا ہاتھ چلتا تو پیچھے کھینچنے لےتا۔پھر دوسری انگلی رکھتا تھوڑی دیر کے بعد جلتا تو کھینچ لے    تاہاتھ سارا جل گیا ۔جب صبح کرنیں   چمکی تو کہنے لگا، چل نکل جا ،دوڑ جا ،بس بڑا صبر کا امتحان ہو گیا چلی جا ۔شہزادی باہر نکلی سپاہی ڈھونڈ رہے تھے بادشاہ  خود جنگل میں نکلا ہوا تھا  ۔ بیٹی مل گئی۔ بادشاہ تنہائی میں جا کے کہنے لگا بیٹی میں دنیا کو بتاؤں گا کہ میری بیٹی کھوئی نہیں   سپاہی ساتھ    تھے۔  بادشاہ   کہنے لگا بیٹی تورات میں کہاں تھی ؟اس نے کہا نیک نوجوان کے پاس ۔ بادشاہ     نے کہا بیٹی میں تو تیری بات مان لوں گا ۔پر دنیا نہیں مانے گی اگر اس نوجوان نے کسی کو بتا دیا کہ تو اس کے پاس تھی تو پھر لوگ میرا جینا محال کر دیں گے۔ بیٹی  میں مر جاؤں گا ۔میری مجبوری یہ ہے کہ  وہ نوجوان اسے قتل کرنا پڑے گا ،  بیٹی نے کہا میرے  محسن کو مارو گے روئی۔    باپ کہنے لگا میں بادشاہ ہوں میرا اپنا وقار ہے میں اس کو چھوڑ نہیں سکتا  سپاہی گرفتار کر لے آئے۔وقت طے ہو گیا سزا کا۔   بادشاہ نے بلایا طالب علم  کو ۔ بیٹی کہنے لگی ۔ایک سوال بس پردے میں رہ کے پوچھنا ہے   پھر جو آپ کا جی چاہے میرے محسن کو مارنا   ہے تو مرضی آپ کی۔  نوجوان کوپردے کے پیچھےکھڑاکیاگیا۔  بادشاہ بیج بیٹھ گیا ۔ لڑکی کہنے لگی ساری رات بیدار   رہی سویا تو بھی نہیں۔ وہ جو تو چراغ کے قریب ہاتھ لے جا کے چلاتا تھا وہ سمجھ نہیں آئی نوجوان رو پڑا کہنے لگا کیا کروں ۔میں رسول اللہ کا دین پڑھا ہے  ۔میں نے پڑھا ہے کہ زانی کو دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں جلایا جائے اسے جہنمیوں کا پیپ  پلایا جائے گند کھلایا جائےگا۔ یہ روایتیں پڑھی ہوئی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد شیطان مجھے کہتا تھا بدکاری کر لے۔  جب شیطان یہ مشورہ دیتا تو میں اپناہاتھ آگ پہ کرتا میں کہتا اگر یہ برداشت ہو گئی تو وہ بھی ہو جائے گی ۔جب ہاتھ جلتا تو میں سمجھ جاتا نہیں تجھ سے تو یہ نہیں برداشت ہوتی تو وہ کیسے ہوگی۔ پھر مجھے شیطان  نے  مشورہ  دیتا کوئی دیکھ نہیں رہا ۔تو   میں نے دوسری انگلی لگا دیتا  ۔میں سمجھ گیا جب چھوٹا سے چراغ کی اتنی سی شمع کی آگ   برداشت نہیں ہوتی تو دوزخ کیسے برداشت ہوگی ۔کہتا ہے میں باز آیا ۔۔۔بادشاہ نے یہ کہانی سنی لفظ سنے تو چیخ مار کے رویا کہنے لگا طالب علم تو تو میرے نبی کا سچا غلام ہے اور میرے رسول کے جو سچے غلام ہوتے ہیں انہیں پھانسی نہیں دی جاتی انہیں تخت  پہ بٹھایا جاتا ہے ۔اور تجھے سزا نہیں ہوگی بلکہ میں اپنی بیٹی کا نکاح تیرے ساتھ کروں گا۔ اور میرے بعد اس سلطنت کا بادشاہ بھی تو ہی بنے گا۔

اب وہ نوجوان وہ نعرے لگا رہا ہے کہتا ہے لوگو تم مجھے کہتے تھے دین سے کیا ملتا ہے دین سے تو اللہ تخت و تاج بھی عطا فرما دیتا ہے

( اگر نوجوان شرم و حیا والے بن کے رہے تواللہ ساری عزتیں دے دے گا)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *