ایک مسلمان کی زندگی کا معیار
الحمدلله، الحمدلله رب العالمین، والصلوۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین، اما بعد
ایک ایسا موضوع جو ہماری روزمرہ کی زندگی سے بہت گہرا تعلق رکھتا ہے۔ یہ وہ دو الفاظ ہیں جن پر نہ صرف ہماری دنیا کی کامیابی بلکہ آخرت کی فلاح بھی منحصر ہے۔
وہے حلال اور حرام
قرآن کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا
(سورۃ البقرہ:
ترجمہ: اے لوگو! زمین میں سے وہ چیزیں کھاؤ جو حلال اور پاکیزہ ہوں۔
ایک اور مقام پر فرمایا
إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا
(سورۃ النساء:
ترجمہ: جو لوگ یتیموں کا مال ناحق طریقہ سے کھاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں۔
گویا حرام رزق کھانا صرف جسم کو گندا نہیں کرتا، بلکہ روح کو بھی جلا دیتا ہے۔
احادیث کی روشنی میں
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے، اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ جو شخص مشتبہ چیزوں سے بچا، اُس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔”
(صحیح بخاری و مسلم)
ایک اور حدیث میں ہے
ایسا گوشت جو حرام سے پلا ہوا ہو، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا
(ترمذی
یہ احادیث ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ جو چیز اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دی ہے، اس سے بچنا نہ صرف تقویٰ ہے بلکہ ایمان کی علامت بھی ہے۔
ایک سبق آموز حکایت
اب ایک حکایت سنتے ہیں
ایک نیک بزرگ روزانہ سوکھی روٹی کھاتے تھے۔ ایک شخص نے پوچھا:
حضرت آپ اتنے عبادت گزار ہو، پھر بھی ایسا سادہ کھانا؟
بزرگ نے کہا:
“بیٹے یہ روٹی اگرچہ سوکھی ہے، لیکن حلال کی ہے۔ اس میں برکت ہے، سکون ہے۔ اور وہ چمچماتا کھانا جو حرام کی کمائی سے آتا ہے، اس میں نہ برکت ہے نہ اطمینان۔”
یہ سادہ سی بات دل کو لگتی ہے۔ کیونکہ حرام مال سے نہ صرف دل سخت ہوتا ہے، بلکہ دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔
آج کا معاشرہ اور ہماری غفلت
آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے حلال و حرام کے فرق کو معمولی سی بات سمجھ لیا ہے۔ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ مال کہاں سے آ رہا ہے، صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کتنا آ رہا ہے۔ رشوت، سود، جھوٹ بول کر کاروبار، دھوکہ، ملاوٹ ،یہ سب ہمارے بازاروں، دفتروں، اور گھروں میں عام ہو چکا ہے۔
ایسی کمائی سے نہ دل کو سکون ملتا ہے، نہ نسلیں سنورتی ہیں، نہ گھروں میں خوشی آتی ہے۔
حل کیا ہے؟
ہمیں قرآن و حدیث سے علم حاصل کرنا ہوگا کہ کیا چیز حرام ہے اور کیا حلال۔
اپنے کاروبار، نوکری، لین دین میں احتیاط کرنی ہوگی۔
والدین کو بچوں کو ابتدا سے ہی حلال و حرام کی پہچان سکھانی ہوگی۔
معاشرے میں حلال روزی کے رجحان کو عام کرنا ہوگا۔
نتیجہ
میرے عزیزو، یاد رکھیں کہ حلال کمائی تھوڑی ہو لیکن اس میں برکت ہوتی ہے۔ جبکہ حرام مال خواہ کتنا بھی ہو، وہ بربادی کا سبب بنتا ہے۔ دنیا فانی ہے، لیکن اس فانی دنیا میں جو ہم انتخاب کرتے ہیں، وہ ہماری ابدی زندگی کو بناتا یا بگاڑتا ہے۔
اللہ ہمیں حلال روزی کمانے، کھانے اور حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔
==============
اپنی اولاد کو بہادری کی تربیت دیجئے
================