ایک گلاس پانی کی قیمت پانچ سو سال کی عبادت
حدیث میں آتا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عابد رہا کرتا تھا، جو بڑی بڑی عبادتیں کرتا تھا، بہت بڑا زاہد تھا، جو ہمیشہ اللہ کی یاد میں مصروف رہتا تھا۔ جب اس کا انتقال ہوا اور اس کو اللہ کے دربار میں پیش کیا گیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا کہ جاؤ! ہم اپنی رحمت سے جنت میں داخل کرتے ہیں۔ اس پر اس نے کہا کہ یا اللہ! وہ جو میں نے پانچ سو برس عبادت کی تھی، وہ کیا ہوئی؟
اللہ نے دو فرشتوں سے کہا: اس کو دوزخ کے قریب لے جاؤ اور وہاں کی تھوڑی سیر کرا کے لے آؤ اور اس سے کہو: پہلے یہاں جا کر آجاؤ، اس کے بعد یہ سوال کرنا۔ فرشتے اس کو دوزخ کے قریب لے گئے، ابھی اس کے اور دوزخ کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت باقی تھی کہ گرمی کی تپش سے اسے شدید پیاس لگی، اور جب اور تھوڑا آگے بڑھا تو اور زیادہ پیاس بڑھنے لگی۔ اس نے پانی تلاش کیا، مگر ادھر اُدھر اس کو پانی نظر نہیں آیا۔
اتنے میں اس نے دیکھا کہ سامنے ایک فرشتہ اپنے ہاتھ میں ایک کٹورا پانی لیے ہوئے کھڑا ہے۔ اس نے اس فرشتے سے کہا: مجھے بڑی شدت کی پیاس لگی ہے، تھوڑا پانی پلا دو۔ اس نے کہا: ایک گلاس پانی کی قیمت پانچ سو برس کی عبادت ہے۔ اس عابد نے کہا: میرے پاس تو پانچ سو برس کی عبادت ہے، مجھے پانی دے دو اور یہ پانچ سو برس کی عبادتیں لے لو۔
اس فرشتے نے پانی دے دیا۔ وہ پانی پی کر اور آگے بڑھا، تو پھر پیاس کی وجہ سے اس کو بے قراری ہونے لگی۔ وہ پریشان ہو رہا تھا۔ دیکھا کہ ایک فرشتہ اپنے ہاتھ میں ایک کٹورا پانی لیے ہوئے کھڑا ہے۔ اس نے اس فرشتے سے کہا: مجھے بڑی شدت کی پیاس لگی ہے، پانی دے دو۔ اس نے کہا: ایک گلاس پانی کی قیمت پانچ سو برس کی عبادت ہے، اگر تمہارے پاس ہو تو دے کر لے لو۔

اب کہاں سے دیتا، جو تھی وہ پہلے دے چکا تھا۔ اس کے بعد فرشتے اس کو لے کر اللہ کے دربار میں آئے۔ اب اللہ تعالیٰ اس کو پوچھتے ہیں کہ اپنی پانچ سو برس کی عبادت کے بدلے جنت میں جاؤ گے، یا ہماری رحمت سے؟ وہ دیکھتا ہے تو خالی ہے، کیونکہ اس نے تو سب کچھ پانی کے بدلے اس فرشتے کو دے دیا تھا۔ اب وہ پریشان ہو جاتا ہے۔
اللہ فرماتے ہیں کہ اے میرے بندے! تو نے دنیا میں کتنے ہزار لوٹے پانی پیے ہوں گے؟ ان کا بدلہ کون دے گا؟ کیا اب بھی تم اپنے اعمال کے بدلے جنت میں جانا چاہتے ہو؟ وہ فوراً سجدہ میں گر جاتا ہے اور روتا ہوا کہتا ہے کہ اے اللہ! میں نادان تھا، اپنی نادانی کی وجہ سے غلطی کر بیٹھا، مجھے معاف فرما دیجیے۔
اللہ اس کو معاف کر دیتے ہیں اور جنت میں داخل کر دیتے ہیں۔ اب بتاؤ بھائی! کہ جنت میں اللہ کے فضل کے بغیر کون جا سکتا ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کسی مہینے میں روزے نہ رکھتے تو ایسے معلوم ہوتا تھا کہ اس مہینے میں آپ بالکل روزہ نہیں رکھیں گے اور جب روزے رکھتے تو اتنے مسلسل رکھتے کہ ہم سوچتے کہ آپ اس میں بالکل ناغہ نہیں کریں گے۔ اور رات کے وقت نماز ایسے پڑھتے تھے کہ تم جب چاہتے آپ کو نماز پڑھتے دیکھ لیتے اور جب چاہتے آپ کو محو خواب دیکھ لیتے۔ (صحيح البخاري، التهجد، حديث (1141)