بادشاہ کا صبر

 بادشاہ کا صبر  بادشاہ کا صبر

 بادشاہ کا صبر

 کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں ایک بادشاہ تھا جو نہایت عادل، مہربان اور صابر تھا۔ اس کی سلطنت میں امن، انصاف اور سکون تھا۔ لوگ اسے “نورالدین” کے نام سے یاد کرتے تھے کیونکہ اس کا چہرہ بھی روشن تھا اور دل بھی روشن ۔

بادشاہ کا عدل و احسان

نورالدین نے کبھی اپنی رعایا پر ظلم نہیں کیا تھا ۔ وہ ان کی بات سنتا، ان کے دکھ درد میں شریک ہوتا، بیماروں کا علاج کرواتا، یتیموں کی پرورش کرتا اور بیواؤں کا سہارا بنتا۔ رعایا اس سے خوش تھی اور اسے دعائیں دیتی۔ اس کا دربار ہمیشہ کھلا رہتا۔

رعایا کہتی

“ایسا بادشاہ نہ کبھی دیکھا نہ سنا، یہ تو ہمارے سروں کا تاج ہے!”

وقت کا بدلنا

لیکن پھر وقت بدلا۔

رفتہ رفتہ رعایا میں دنیا کی محبت بڑھنے لگی، لالچ آ گئی، خود غرضی اور بدگمانی نے جگہ بنا لی۔ لوگوں نے بادشاہ کی نعمتوں کو معمولی سمجھا۔ انھوں نے آپس میں فساد کرنا شروع کردیا، مظلوموں پر ظلم ہونے لگا، جھوٹ بولنا عام ہوا، غریبوں کو نظر انداز کیا جانے لگا۔

کچھ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا

“بادشاہ تو بوڑھا ہو چکا ہے، اب ہمیں نئے انداز کی سلطنت چاہیے!”

بادشاہ کا سکوت

نورالدین سب کچھ دیکھتا، سنتا مگر کچھ نہ کہتا۔

وہ راتوں کو اٹھ کر اپنی رعایا کے لیے دعائیں مانگتا، رب سے کہتا:

“اے میرے رب! یہ میرے لوگ ہیں، میں نے ان سے ہمیشہ محبت کی ہے، یہ بھٹک گئے ہیں، ان کو معاف فرما!”

دن گزرتے گئے، بلکہ و لوگ اور زیادہ گستاخ ہو گئے۔ انہوں نے بادشاہ کے پیغامات کو رد کر دیا، اس کے خیرخواہوں کو قید میں ڈال دیا اور شر کو اپنا شعار بنا لیا۔

وہ دن جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوا

ایک دن ایسا آیا کہ بادشاہ نے اپنے سب وزیروں کو بلایا، اور کہا

“اب بس! اب وقت آ گیا ہے کہ میں ان لوگوں کو ان کے اعمال کا انجام دکھاؤں!”

اور وہ دن تاریک ترین دن تھا۔

بادشاہ کا چہرہ جو کبھی نور سے دمکتا تھا، اب وہ غصے سے سرخ تھا۔ اس نے رعایا کے خلاف حکم جاری کیا

ظالموں کو ان کے اعمال کی سزا دی جائے۔
فتنہ پرستوں کو جیلوں میں ڈالا جائے۔
ناقدروں سے نعمتیں واپس لے لی جائیں۔

 

پچھتاوا اور معافی کی پکار

اب رعایا رونے لگی۔ وہ بادشاہ کی بارگاہ میں آ کر گڑگڑانے لگی 

“ہمیں معاف کر دو، ہم نے تمہاری نرمی کا غلط فائدہ اٹھایا، ہمیں ایک موقع اور دو!”

لیکن بادشاہ نے فرمایا 

“میں نے تمہیں بارہا موقع دیا، تم نے میرے پیار کا مذاق بنایا، اب میرے فیصلے کو کوئی نہیں روک سکتا!”

نتیجہ

بادشاہ نے سلطنت میں ایک نئی شروعات کی۔ نیک لوگوں کو عزت ملی، اور بدکاروں کو الگ کر دیا گیا۔

تب لوگوں کو سمجھ آیا

“جب بادشاہ محبت کرے تو اس کی قدر کرو، کیونکہ اگر وہ ناراض ہو جائے، تو رحم کا دروازہ بند ہو سکتا ہے!”

 📚 سبق 

یہ حکایت ایک ایسی مثال ہے جو ہمیں بہت بڑا سبق دیتی ہے 

 اللہ تعالیٰ سب سے بڑا بادشاہ ہے، جو ہمیں دن رات نعمتیں دیتا ہے — صحت، رزق، سکون، علم، محبت، حفاظت۔

 ہم انسان اس کی عطا کردہ نعمتوں کو معمولی سمجھ کر نافرمانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

 اللہ تعالیٰ بہت رحم والا ہے، بار بار مہلت دیتا ہے، درگزر کرتا ہے۔

 لیکن جب ہم حد سے بڑھ جاتے ہیں تو اللہ کا قہر اور عذاب نازل ہو سکتا ہے، جیسا کہ قومِ عاد، ثمود، فرعون، اور بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا۔

 لہٰذا، ہمیں بادشاہ یعنی اللہ کی محبت کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ہمیشہ فرمانبردار رہنا چاہیے۔

============

 حق کے اندھے اور بہرے لوگ

===========

سوره طه

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *