بدلا جو وقت گہری رفاقت بدل گئی

بدلا جو وقت گہری رفاقت بدل گئی بدلا جو وقت گہری رفاقت بدل گئی

بدلا جو وقت گہری رفاقت بدل گئی

تمہید

وقت ایک ایسا سمندر ہے جس میں ہر انسان کشتی کی مانند رواں دواں ہے۔ یہ سمندر کبھی سکون کا پیغام لاتا ہے، تو کبھی طوفانوں میں ڈال دیتا ہے۔ وقت نہ صرف حالات بدلتا ہے، بلکہ دل، رشتے، اور وہ رفاقتیں بھی بدل دیتا ہے جن پر کبھی ہمیں فخر ہوا کرتا تھا۔ وہ رشتے جو کبھی ہماری روح کی آواز ہوتے تھے، اب اجنبی لہجوں میں ہم سے مخاطب ہیں۔ اس تحریر میں ہم وقت کی تبدیلیوں اور رفاقتوں میں آنے والے زوال پر ایک گہرا فکری جائزہ پیش کریں گے۔

وقت کی حقیقت: ایک ناقابل انکار تبدیلی

کہا جاتا ہے کہ “وقت سب کچھ بدل دیتا ہے”۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت بذاتِ خود کچھ نہیں بدلتا، وہ تو ایک خاموش گواہ ہے۔ اصل میں بدلتے ہیں انسان، ان کے احساسات، ان کی ترجیحات، اور ان کی وفائیں۔ وقت تو وہی رہتا ہے، جو کل سورج مشرق سے نکلا تھا، وہ آج بھی ویسے ہی طلوع ہوتا ہے، لیکن جن لوگوں کے چہرے کل سورج کی روشنی میں مسکراتے تھے، آج ان ہی چہروں پر اجنبیت کا سایہ ہے۔

رفاقتیں کیوں بدل جاتی ہیں؟

گہری رفاقت ایک ایسا رشتہ ہے جو صرف وقت گزارنے سے نہیں، بلکہ دلوں کی ہم آہنگی، احساس کی شدت اور قربانیوں سے پروان چڑھتی ہے۔ لیکن جیسے ہی انسان کے اندر “مفاد” کا بیج اگنے لگتا ہے، ویسے ہی رفاقت کی جڑیں کمزور ہونے لگتی ہیں۔

مفاد پرستی کا بڑھتا رجحان

پہلے دوستی بے لوث ہوتی تھی، “کسی فائدے” کے بغیر۔ آج کی رفاقت اکثر کسی “ضرورت” کے تحت بنتی ہے۔ جب تک آپ کسی کے کام آ سکتے ہیں، آپ عزیز ہوتے ہیں؛ جیسے ہی آپ بےنیاز ہو جائیں، آپ غیر اہم بن جاتے ہیں۔

ڈیجیٹل رشتہ داریاں

سوشل میڈیا نے فاصلے کم کر دیے، مگر دلوں کے درمیان فاصلے بڑھا دیے۔ آن لائن چیٹ، سٹیٹس ریپلائے، اور ایموجیز نے اصل رفاقت کا مزاج ہی بدل دیا ہے۔ اب “آن لائن” ہونا ہی “حاضر” ہونے کی علامت ہے، چاہے دل کہیں اور ہو۔

وقت کی قلت یا ترجیحات کی تبدیلی؟

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ “اب وقت نہیں رہا”، لیکن دراصل مسئلہ وقت کا نہیں، ترجیحات کا ہے۔ جو رشتہ دل کے قریب ہوتا ہے، اس کے لیے انسان وقت نکال ہی لیتا ہے۔

یادیں: جو رہ جاتی ہیں

بدلتے وقت کے ساتھ رفاقتیں تو بدل جاتی ہیں، لیکن جو چیز باقی رہتی ہے وہ ہے “یادیں”۔

ان یادوں میں کبھی ہنسی کی آواز گونجتی ہے، کبھی آنکھوں میں نمی آ جاتی ہے۔

وہ چائے کی پیالیاں، وہ رات گئے فون کالز، وہ بےفکری میں کی گئی باتیں، سب آج کسی خزانے کی مانند دل میں دفن ہیں۔

رفاقت کے بدلے ہوئے رنگ

پہلے رفاقت میں اخلاص تھا، آج دکھاوا ہے۔

پہلے خاموشی بھی کچھ کہہ جاتی تھی، آج الفاظ بھی بے اثر ہو گئے ہیں۔

پہلے غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے دوست ایک دوسرے کے دروازے پر دستک دیتے تھے، آج “دس سال کی دوستی” ایک میسج ان سین چھوڑ کر ختم ہو جاتی ہے۔

وقت کی بےرحمی یا انسانی کمزوری؟

یہ سوال اکثر دل کو چبھتا ہے: کیا وقت واقعی ظالم ہے، یا ہم خود بدل گئے ہیں؟

ہم نے آسانی سے چھوڑ دینا سیکھ لیا ہے، معاف کرنے کا ہنر کھو دیا ہے۔

ہم رفاقت کو نبھانا نہیں چاہتے، بس ایک نیا چہرہ، نیا دوست، نیا رابطہ بنا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں رفاقت کا مقام

اسلام میں صحبتِ صالحین کی بڑی اہمیت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

“یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ”

(سورہ التوبہ: 119)

ترجمہ: “اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔”

یہ آیت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ رفاقت کا انتخاب بھی تقویٰ اور سچائی کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

بدلا جو وقت گہری رفاقت بدل گئی سورج ڈھلا تو سائے کی صورت بدل گئی اک عمر تک میں اس کی ضرورت بنا رہا پھر یوں ہوا کہ اس کی ضرورت بدل

 “المرءُ على دينِ خليلِه، فلينظر أحدُكم من يُخالِل”

ترجمہ: “آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، پس ہر ایک کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی رکھتا ہے۔” (ابوداؤد)

یہ احادیث و آیات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ سچی رفاقت وہی ہے جو ہمیں اللہ کے قریب کرے، نہ کہ وقتی جذبات اور دنیوی مفادات کی بھینٹ چڑھ جائے۔

ادبی زاویہ

اردو شاعری نے بھی بدلتے رشتوں اور وقت کی سنگدلی کو بارہا موضوع بنایا۔

جون ایلیا کہتے ہیں

“کچھ اس طرح سے وقت نے ہم کو بدل دیا

تجھ کو بھی حیرت ہے، میں بھی حیران ہوں

احمد فراز نے کیا خوب کہا

“وفا کرو تو کریں، اب وہ لوگ کہاں

جو نبھانے کو رشتہ، مٹی ہو جاتے تھے”

کیا ہم رفاقت کو واپس پا سکتے ہیں؟

یہ سوال اہم ہے، اور اس کا جواب بھی ممکن ہے۔

اخلاص کی طرف لوٹ آئیں

اگر ہم رفاقت میں دوبارہ خلوص، معافی اور قربانی لے آئیں تو گہری رفاقتیں واپس آ سکتی ہیں۔

دوسروں کی سننے اور سمجھنے کی عادت ڈالیں

اکثر رفاقتیں اس لیے ختم ہوتی ہیں کہ ہم اپنی بات تو سناتے ہیں، مگر دوسروں کی سنتے نہیں۔

روابط کو وقت دیں

رشتہ تب ہی پھلتا پھولتا ہے جب اس کو وقت، توجہ اور خلوص ملے۔ خالی رسمی پیغام یا عید کی مبارکباد سے رشتہ جاندار نہیں ہوتا۔

نتیجہ

“بدلہ وقت و گہری رفاقت بدل گئے” — یہ جملہ ایک شکایت نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے، جو ہمیں خود کا چہرہ دکھاتا ہے۔ وقت تو اپنا کام کرتا ہے، اصل امتحان ہمارا ہے: کیا ہم اس وقت کے ساتھ بدل کر بھی اپنی اصلیت قائم رکھ سکتے ہیں؟ کیا ہم رفاقت کے اس سچے رنگ کو بچا سکتے ہیں جو صرف خلوص اور سچائی سے رنگین ہوتا ہے؟

اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ رفاقتوں میں وہی محبت، اپنائیت، اور گہرائی واپس آئے، تو ہمیں خود بدلنا ہوگا۔ خالی وقت کو الزام دینے سے کچھ نہیں ہوگا، ہمیں دلوں کی طرف پلٹنا ہوگا، احساس کی طرف لوٹنا ہوگا، اور پھر شاید وہ رفاقتیں، جو وقت کی دھند میں گم ہو چکی ہیں، ایک دن دوبارہ زندہ ہو جائیں


سورة مريم

اولیاء کرام کا عرس

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *