برتن  میں کدّو

 برتن  میں کدّو  برتن  میں کدّو

 برتن  میں کدّو

ایک   وز یر ہرن کے شکار کے لیے نکلا، اور راستہ بھول کر  اپنے ساتھیوں سے الگ ہو گیا۔

چلتے چلتے    وزیر  کو ایک جھونپڑی نظر آئی جس کے چاروں طرف باغ تھا۔ یہ باغ ایک خوبصورت  بچی  کا تھا۔

  وزیر  نے  بچی  سے پوچھا:

“مجھے بتاؤ بچی، تم یہاں کون سے پودے اُگا رہی ہو؟”

“میں کدو اور خربوزے اُگاتی ہوں،” بچی   نے کہا۔

  وزیر کو اس وقت پیاس لگی تھی۔ اس نے  بچی  سے پینے کے لیے پانی مانگا۔

“کیوں نہیں،” بچی نے جواب دیا، “آپ سلامت رہیں خوبصورت وزیر! بے شک ہمارے پاس پانی موجود ہے، لیکن ہمارے پاس پانی پیش کرنے کے لیے صرف ایک پرانا اور خراب   پیالہ  ہے ۔ اگر ہمارے پاس خالص سونے کا ایک برتن ہوتا  جس میں ہم چشمے کا میٹھا  پانی ڈال سکتے  تو یہ آپ کے شایانِ شان ہوتا۔”

  وزیر نے کہا، “مجھے  پیالہ کی کوئی پرواہ نہیں، میں سخت پیاسا ہوں، مجھے اس سے کوئی غرض  نہیں کہ  پیالہ  پرانا ہے یا خراب ہے، مجھے بس پانی پینا ہے۔”

 بچی   گھر میں واپس  داخل ہوئی،  پیالہ کو  ٹھنڈے اور صاف پانی سے بھر ا اور   وزیر کو پیش کر دیا۔   وزیر نے جی بھر کر اپنی پیاس بجھائی اور  بچی کا شکریہ ادا کیا۔

جونہی   وزیر  نے  پیالہ  بچی کو واپس کیا،  بچی نے اسے  سیڑھیوں سے نیچے  پھینک دیا۔  پیالہ چکناچور ہو  چکا تھا۔

 بچی  کی اس غیر متوقع حرکت پر   وزیر  حیران رہ گیا۔اسے شک  گزرا  کہ  بچی نے   وزیر کے سامنے آداب کا خیال نہیں رکھا۔

  وزیر  نے تعجب سے کہا، “تم دیکھ رہی  ہو کہ میں ایک   ہوں، اور تم یہ بھی جانتی  ہو کہ میں تخت کا وارث ہوں،پھر  تم نے میرے ہاتھ سے  پیالہ  لیتے ہی کیوں توڑ دیا؟

“وزیر سلامت! میں نے اس  پیالہ  کو توڑا ہے جسے میری  اماں نے کئی سالوں سے محفوظ کر رکھا تھا۔لیکن اب میں نہیں چاہوں گی  کہ اسے آپ کے بعد کوئی اور استعمال کرے، کیونکہ اسے آپ جیسے عظیم  وزیر نے  چھوا ہے۔”  بچی  نے کہا۔

 وزیر نے یہ سن کر کوئی جواب نہ دیا، لیکن دل ہی دل میں وہ اس  بچی   کی باتوں  پر حیران ہوا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ ایک  خوش خلاق اور  پاکیزہ  بچی  ہے۔ جب وہ اپنے محل میں واپس پہنچا  تو اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس نے سوچا کہ کیا  بچی  واقعی اتنی ہی ذہین ہے جتنی اچھی اس نے باتیں کی تھیں۔پھر اس نے  بچی  کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا۔

کچھ وقت گزرنے کے بعد   وزیر   نے ایک سپاہی کو حکم دیا کہ  بچی  کو شیشے کا ایک  برتن دیا  جائے، جس کا منہ ایک انچ سے بھی تنگ ہو۔ سپاہی کو حکم دیا گیا  کہ  بچی  کو بتانا ہے کہ  برتن   وزیر  کا ہے اور  وزیر نے کہا ہے کہ اس میں ایک کدّو اس طرح رکھنا ہے کہ  برتن  کسی بھی طریقے سے نہ ٹوٹے۔ کدو کے ساتھ ساتھ  برتن اور اس کا منہ بالکل اپنی اصل حالت میں ہوں۔

 بچی نے  وزیر  کو آگاہ  کیا کہ وہ اس کے حکم پر عمل کر سکتی  ہے، لیکن اس  میں کچھ وقت لگے گا۔

کچھ مہینوں بعد  بچی   وزیر  کے محل میں پہنچی۔ اس نے وہی  برتن   اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا، اور اس کے اندرایک ترو تازہ  کدو موجود  تھا۔  وزیر نے برتن کا اچھی طرح معائنہ  کیا اور تصدیق کی کہ یہ وہی  برتن ہے جو اس نے  بچی تک پہنچایا تھا۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ برتن اور کدو بالکل ٹھیک حالت میں تھے۔ اس نے فوراً  ہی  بچی  سے شادی کی خواہش ظاہر کی جسے  بچی  نے  قبول کر لیا ۔

کچھ عرصہ بعد جب اس کی  نئی بیوی نے بتایا کہ اس نے  برتن میں کدو کیسے داخل کیا تھا تو  وزیر ہنس پڑا اور اس کی عقلمندی کی تعریف کی۔

اب سنئے کہ  بچی  نے  برتن  کے اندر کدو کیسے داخل  کیا تھا؟

کدو  کا راز یہ تھا کہ  بچی  نے کدو کی تازہ بیل سے ایک کلی  برتن میں  ڈالی تھی، جو اس کے تنگ  منہ سے آسانی سے  برتن میں چلی گئی۔ اس سے کدو کا پھول نکلا جو وقت کے ساتھ ساتھ ایک مکمل کدو بن گیا۔جب کدو تیار ہو گیا تو  بچی نے کدو کو بیل سے الگ کیا  اور  برتن لے کر محل میں پہنچ گئی۔

(عقل کا صحیح استعمال )


  ::::: چالیس پیاز ساٹھ کوڑے سو دینار  :::::

 Mosque Etiquette Mosque Etiquette

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *