بنی اسرائیل کے ایک عابد و زاہد کا واقعہ

بنی اسرائیل کے ایک عابد و زاہد کا واقعہ بنی اسرائیل کے ایک عابد و زاہد کا واقعہ

بنی اسرائیل کے ایک عابد و زاہد کا واقعہ

حدیث میں ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے، بنی اسرائیل کے ایک عابد و زاہد شخص کا، اور یہ حدیث علامہ جلال الدین سیوطی نے نقل کی ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک بہت بڑا عابد و زاہد شخص تھا۔ وہ رات دن اللہ کی عبادت کرتا تھا۔ چونکہ صاحب عیال تھا، اس لیے کمانے کا بھی کچھ دھندا تھا۔ دوکان کی صورت میں تھوڑی سی تجارت تھی، مگر اس کا دل اس سے الجھا تھا اور چاہتا تھا کہ یہ سب کچھ نہ ہو…

بس ہر وقت عبادت ہی میں لگارہے، مگر سوچتا کہ بیوی بچوں کا کیا کرے۔ بہر حال ایک دن اسے جذبہ آیا اور ساری تجارت و دولت کو اس نے بیوی اور بچوں کے نام کر دیا اور خود فارغ ہو گیا۔

سب سے رخصت ہو کر سمندر کے بیچ میں پہنچ گیا۔ وہاں ایک ٹیلہ تھا، اس پر ایک چھوٹی سی جھونپڑی باندھی تاکہ اب ہر وقت اس میں بیٹھ کر اللہ کی عبادت میں مصروف رہے۔ ان مذاہب میں رہبانیت جائز تھی، یعنی ساری دنیا کو چھوڑ کر آدمی ایک کونے میں جا بیٹھتا، اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی، مگر شخص اپنے مذہب کے مطابق جا کر بیٹھ گیا۔ گویا اس نے بڑی بھاری عبادت کی۔

چونکہ مخلص تھا اور صاحبِ دل تھا، اس لیے اس سمندر کے بیچ والے ٹیلے پر جہاں نہ کوئی جہاز آ سکے اور نہ کوئی کشتی وغیرہ جا سکے، حق تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہاں ایک میٹھا چشمہ جاری کر دیا اور اس پہاڑی پر ایک انار کا درخت اگا دیا۔

اس عابد کا کام یہ تھا کہ روزانہ ایک انار کھاتا اور ایک کٹورہ پانی پیتا، اور چوبیس گھنٹے عبادت میں مصروف رہتا۔ اس کی عمر پانچ سو برس ہو گئی اور یہ پانچ سو برس اسی شان سے گزرے۔ اب اس کے انتقال کا وقت آیا۔ اس نے حق تعالیٰ سے درخواست کی کہ:
“اے اللہ! یہ تیرا فضل تھا کہ تو نے مجھے عبادت میں لگایا۔

اب میری خواہش ہے کہ مجھے سجدے کی حالت میں موت دے تاکہ خاتمہ میری عبادت کے اوپر ہو، اور دوسری درخواست یہ ہے کہ سجدے کی حالت میں میرے بدن کو قیامت تک محفوظ رکھ، نہ زمین کھائے اور نہ کیڑے مکوڑے، تاکہ قیامت تک میں تیرا عبادت گزار بندہ ہی سمجھا جاؤں۔”

حق تعالیٰ نے اس کی دونوں دعائیں قبول فرمائیں۔ عین نماز کے اندر سجدے کی حالت میں انتقال ہوا اور اس کا بدن محفوظ ہے۔ حضور فرماتے ہیں کہ آج تک محفوظ ہے، لیکن تا تعالیٰ نے اس ٹیلے کے اوپر بڑے بڑے گنجان درخت ایسے اگا دیے ہیں کہ وہاں تک پہنچنا ہیبت خیز ہے، اس لیے وہاں کوئی نہیں جاتا۔ مگر بدن آج تک محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا۔ و ہاں نہ کوئی جانور جاتا ہے اور نہ کوئی انسان۔ اسی حالت میں حق تعالیٰ کے سامنے پیشی ہوگی۔

حق تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے:
“کہا اے بندے! میں نے اپنے فضل و کرم سے تجھے بخشا اور تجھے بڑے مقامات دیے، جنت میں جا کر آرام کرو۔”

بندہ عرض کرے گا:
“اے اللہ! میں نے تو ساری عمر تیری عبادت میں گزاری، پھر بھی تیرے فضل سے جنت میں جاؤں گا۔ میں تو اپنی عبادت کے بدلے جنت میں جا رہا ہوں۔”

اللہ تعالی فرمائیں گے
“نہیں، ہم اپنے فضل سے جنت میں بھیج رہے ہیں۔”

وہ پھر کہے گا
“نہیں اے اللہ! پھر میری عبادت کسی کام آئے گی؟ میں تو اپنی عبادت کے بدلے جنت میں جا رہا ہوں۔”

تو حکم ہوگا کہ اسے جہنم کے قریب لے جا کر کھڑا کر دو۔ جہنم میں داخل نہ کرنا، اسے اتنی دور رکھو کہ جہنم کا راستہ وہاں سے پانچ سو برس کا ہو۔ ملائکہ اسے لے جائیں گے اور لے جا کر کھڑا کر دیں گے۔ جہنم کی طرف سے ایک گرم ہوا اور آگ کی لپٹ آئے گی، .

اس کی وجہ سے وہ سر سے پاؤں تک خشک ہو جائے گا اور اس کی زبان پر کانٹے کھڑے ہو جائیں گے، اور پیاس پیاس چلانا شروع کرے گا۔

اس وقت غیبی ہاتھ ظاہر ہوگا جس میں ٹھنڈے پانی کا ایک کٹورہ ہو گا۔ یہ عابد دوڑے گا کہ
“اے خدا کے بندے! یہ پانی مجھے دے دو، میں بالکل مرنے کے حال میں ہوں۔”

آواز آئے گی کہ
“کٹورہ تو ملے گا پانی کا، مگر اس کی قیمت ہے، مفت نہیں ملے گا۔”

وہ پوچھے گا
“اس کی کیا قیمت ہے؟”

کہا جائے گا کہ
“جس نے خالص پانچ سو برس کی عبادت کی ہو، وہ اگر پیش کرے تو یہ کٹورہ پانی اسے مل سکتا ہے۔”

عابد کہے گا
“میرے پاس ہے پانچ سو برس کی عبادت۔”

وہ عبادت کو پیش کر دے گا اور وہ کٹورہ لے کر پانی پی لے گا تو کچھ جان میں جان آ جائے گی۔ حق تعالیٰ کہیں گے کہ:
“اسے واپس لاؤ، پھر اس کی پیشی ہوگی۔”

حق تعالیٰ دریافت فرمائیں گے
“اے بندہ! تیری پانچ سو برس کی عبادت کے صلے سے تو ہم آزاد ہو گئے۔ پانچ سو برس کی عبادت کے بدلے ایک کٹورہ پانی لے لیا، اور ہر قیمت تو نے خود تجویز کی، لہذا اب تو برابر سرابر ہو گیا۔ اب ہمارے ذمے کچھ نہیں، تجھے تیر عبادت کا صلہ مل گیا۔”

اب وہ جو تم نے لاکھوں دانے انار کے کھائے ہیں، ایک ایک دانے حساب دیے، اس کے بدلے میں کتنی نمازیں پڑھی ہیں، کتنے سجدے کیے ہیں، اور وہ ہزاروں کٹورے پانی کے پتے ہیں، ایک ایک قطرے کا حساب دیے، اس پانی کے بدلے کتنی عبادتیں کی ہیں، اور وہ جو ٹھنڈا سانس لیتا تھا جس سے زندگی قائم تھی، ایک ایک سانس کا حساب دیے کہ اس کے بدلے میں کیا عبادتیں لے کر آیا ہے۔

پانچ سو برس کی عبادت کا بدلہ تو ایک کٹورہ پانی ہو گیا، اب جو دوسری نعمتیں استعمال کی ہیں، ان کا حساب دیے۔

یہ عابد تھرا جائے گا اور کہے گا
“بے شک نجات اللہ آپ کے ہی فضل سے ہوگی، کسی کا عمل کسی کو نجات نہیں دلا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر لاکھوں برس عبادت کرے گا تو وہ بھی ذریعہ نجات نہیں بن سکے گا جب تک کہ فضل خداوندی نہ ہو۔”

اس لیے کہ جو عبادت کرے گا، اس کی طاقت کون دے گا؟ ظاہر بات ہے وہ طاقت بھی وہی دے گا۔ اور طاقت آنے کے بعد جو ارادہ دل میں ہوگا، وہ ارادہ کون پیدا کرے گا؟ وہ بھی وہی پیدا کرے گا۔ پھر توفیق کون دے گا؟ وہ بھی وہی دے گا۔ پھر آپ نے کیا کیا؟ سب کچھ تو انہوں نے کرایا۔ ارادہ انہوں نے دیا، طاقت انہوں نے دی، توفیق انہوں نے دی۔

آپ نے صرف چار سجدے کر لیے، تو کیا کمال کیا؟ اور ان سجدوں میں بھی جو حرکت بدنی کی طاقت تھی، وہ بھی آپ کی ذاتی نہیں تھی، وہ بھی انہی کی دی ہوئی تھی۔ تو اول سے آخر تک کام تو سارا ان کا ہے، اور کہنے لگیں آپ کہ “میں نے کیا؟” پھر آدمی اس پر فخر کرے، فضول ہے۔ بلکہ موقعہ شکر کا ہے کہ تمام نعمتیں اس نے اپنے فضل سے دی ہیں۔
(خطبات طیب)

==================

ثابت قدمی کامیابی کی کنجی

سورة النمل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *