تخلیق ارض و سما

تخلیق ارض و سما تخلیق ارض و سما

تخلیق ارض و سما

بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے جس کی شان انتہائی بلند اور جس کا نام انتہائی مقدس و پاکیزہ ہے ان تمام مخلوقات کو بغیر کسی ضرورت کے وجود بخشا۔ تمام مخلوق کی تخلیق سے اس کا ایک ہی غرض وابستہ نہیں، بلکہ اپنے فضل و مہربانی سے اس نے کارخانہ عالم کو وجود بخشا، اور پھر ان میں سے بعض مختلف مخلوق کو اپنے اوامر و نواہی کے ساتھ مختص کیا۔ اور ان سے اپنی عبادت و اطاعت کا امتحان بھی لیا تاکہ جو اس میں سرفرو ہو اور عبادت و اطاعت کرے، اور حمد و شکر گزاری بجالائے ان پر نعمتوں کا اضافہ کرے۔ اور فضل و احسان میں مزید نوازشات کی اس پر بارش برسائے۔ جیسا کہ حق تعالیٰ شانہ نے قرآن کریم میں یہ بات ارشاد فرمائی:

ترجمہ: “میں نے جن و انس کو اپنی بندگی کی لیے پیدا کیا ہے۔ اور میں ان سے رزق رسانی نہیں چاہتا نہ یہ چاہتا کہ وہ مجھے کچھ کھلائیں! اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے اور انتہائی قوت و طاقت کا مالک ہے (سورۃ الذاریات، آیت نمبر 56 تا 58)”

ان تمام مخلوقات کو پیدا کر کے ان کو سلطنت و بادشاہت میں زیراب گنا نہ ہوا۔ اور اگر وہ ان سب کو فنا و عدم کر دے تو بھی اس کی سلطنت و بادشاہت میں بال برابر بھی کمی نہ ہوگی۔ اس لیے کہ تکبرات احوال سے وہ متاثر نہیں ہوتا۔ خوشی و غمی کی کیفیات اس پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔ اور ایسا کرنے سے کوئی کمزور اور عاجز نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ وہ خودی و ماہو اور ہر طرح کی چیز اس کا ایک خالق ہے۔

اس کے فضل و احسان اور بخشش و سخاوت سے سب ہی بہرہ مند ہیں۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو کہنے کے لیے کیوں دیا ہوگا: “کیا بگاڑا اور بصیرت حاصل کرنے کو یہ خوب عطا فرمائے اور انہیں عقل سلیم کے لیے قیمت مہیا نہ فرمائے۔” ایسے بے دین و باطل کے درمیان کرتے ہیں۔ اور اپنے نفع و نقصان کو پہچاننے لگیں۔ اس لیے زمین کو بچایا تا کہ وہ اس کو صاف اور واضح راستوں پر چلیں۔ اور آسان کو ایک نقطہ خوبصورت اور انتہائی بلند بنایا۔ اور پھر اس میں سے موسلا دھار بارش برسائی اور مقررہ مقدار میں رزق اتارا۔ اور اخلاق عملی کے مصالح و فوائد کے لیے چاند سورج کو آگے پیچھے دوڑایا تا کہ نتیجے میں دن اور رات کا گمان رہتا ہے۔ اور رات کو اس نے لوگوں کے لیے لباس بنا دیا اور دن کو معاش کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ چاند سورج کی یہ گردش اور دن و رات کا آیا جانا اللہ تعالیٰ کا بندوں پر احسان عظیم ہے!

او اپنے مقدس کلام میں فرمایا ہے

“اور ہم نے رات اور دن کی دوشنائیاں بنائیں۔ پس ہم رات کی نشانی مٹاتے ہیں اور دن کی نشانی کو دیکھانے کا ذریعہ بنا دیتے ہیں تاکہ اپنے رب کا فضل و رزق تلاش کرو۔ اور سالوں کا شمار اور حساب و کتاب جان لو۔ اور ہم نے ہر چیز کو جدا جدا کر کے واضح انداز میں بیان کر دیا ہے۔ (سورۃ الاسراء، آیت نمبر 12)”

اس کے علاوہ ان سے فرائض دین کی ادا بندگی کے اوقات بھی معلوم ہوتے ہیں۔ جیسے کہ دن اور رات کی گھڑیوں اور ماہ وسال سے۔ مثلاً صبح و فجر نماز و زکوٰۃ، حج و روزے وغیرہ۔ اسی طرح معاملات دین و فرض یا دیگر حقوق کی ادا بندگی کا وقت، جیسا قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے۔

“یہ لوگ آپ سے چاند کے بڑھنے گھٹنے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ آپ جواب دیجیے کہ یہ حج اور دیگر فرائض دین کے لیے اوقات کے محل ہیں۔ (سورۃ البقرہ، آیت نمبر 189)”

دوسری جگہ ارشاد ہے

“وہی ذات ہے جس نے سورج کو دن کو اور چاند کو رات کو بنایا اور اس کا منزلیں مقرر فرمائیں تا کہ تم سالوں کی گنتی اور حساب معلوم کر سکو۔ اس نے ٹھیک درست طریقے سے یہ پیدا کیا ہے۔ اور وہ علم والے لوگوں کے لیے یہ نشانیاں کھول کھول کر واضح انداز میں بیان فرماتا ہے۔ بلاشبہ دن اور رات کے آنے جانے میں اور آسمان و دیگر مخلوق میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو کہ ڈرتے ہیں۔”

تمام تر انعامات اللہ تعالیٰ کا محض فضل و احسان ہیں اور بندہ جب شکرگزاری و احسان مندی کے جذبات سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی انعامیت میں مزید اضافہ فرما دیتے ہیں۔

جیسا کہ قرآن کریم میں حق تعالیٰ شانہ کا یہ وعدہ مذکور ہے:

“تمہارا رب یہ اعلان کر رہا ہے کہ اگر تم اس کی شکرگزاری کرو گے تو میں تمہیں مزید اضافہ دوں گا اور اگر تم شکری کا راستہ اختیار کرو گے (تو یاد رکھو) بلاشبہ میرا عذاب بڑا سخت ہے (سورۃ ابراہیم، آیت نمبر 7)”

چنانچہ بنی آدم کی ایک ایک جزئی نعمت کی شکر گزاری کا رات اختیار کیا سو اللہ تعالیٰ نے حسب وعدہ سابقہ اور آئندہ نعمتوں میں مزید خوب اضافہ فرمایا۔ یہ بیان تو صرف دنیاوی نعمتوں کے ختم و نیز دنیا کی دائمی نعمتیں ان شکر گزار بندوں کے لیے عمر بھر کی لگی ہے۔

ایک اور بڑے سے بناتے ہوئے ناشکری و کفران نعمت کا اختیار کیا اور اللہ کی عبادت ہے۔ بجائے غیروں کی چوکھٹ پر سر جھکایا تو اللہ تعالیٰ نے تمام نعمتیں بھی ان سے سلب فرمائیں۔ جنھوں نے کفران میں بلکہ ان پر مہلک عذاب نازل فرمایا۔ جو کہ دو کے ساتھ دوسرے کے لیے مروان کا نشان ثابت ہوا۔

اور ان ہی ناشکروں میں سے لوگوں کو دنیاوی زندگی میں اپنی نعمتوں سے نفع اٹھانے کی خوب مہلت عطا فرمائی لیکن وہ استدراج و تعلیل تھی نہ کہ مقبولیت و عطا۔ تا کہ آخرت میں وہ دولونگ عذاب اس کو خوب حق ہو جائیں لہذا وہ نہیں تو ان کی پکڑ نہ ہوئی۔ البتہ آخرت میں ان کو سخت سزا ہوگی۔

اعاذنا اللہ منہ

ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں ایسے عمل سے جو اس کی ناراضی کا سبب بنے۔ اور ایسے عمل کی توفیق کا سوال کرتے ہیں جو اس کی رضا مندی اور قرب کا باعث ہو۔ ایں یا رب العالمین۔


نالائق کو علم سکھانا علم کی توہین ہے

سورة فاطر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *