تراویح کے بعض رکعت چھوٹ جائے تو کیا حکم ہے

تراویح کے بعض رکعت چھوٹ جائے تو کیا حکم ہے تراویح کے بعض رکعت چھوٹ جائے تو کیا حکم ہے

تراویح کے بعض رکعت چھوٹ جائے تو کیا حکم ہے

تراویح کے بعض رکعت چھوٹ جائے تو کیا حکم ہے

اگر کسی شخص کی تراویح کے بعض رکعات  جماعت سے چھوٹ جائے تو وہ ترویحہ کے وقفے میں رکعت پورے کر لے اور اگر پھر بھی رہ جائے اور امام وتر پڑھانے کے لیے کھڑا ہو جائے تو امام کے ساتھ اولا وتر ادا کرے اس کے بعد اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں پڑھیں(در مختار

اگر کسی مسجد میں کوئی بھی نماز جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی جاتی ہو سب نماز  تنہا تنہا پڑھی جاتی ہو تو اس مسجد میں تراویح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا ان کے لیے بہتر نہیں ہیں (در مختار

جس شخص نے عشاء کی نماز جماعت سے نہیں پڑھی اپنے فرض نماز تنہا پڑھ کر تراویح اور وتر کی جماعت میں شریک ہو سکتا ہے اس کے لیے شرعا کوئی رکاوٹ نہیں ہے

اگر کوئی شخص کسی جگہ تراویح پڑھ چکا ہو یا پڑھا کر آیا ہو اور دوسری جگہ   تراویح چل رہی ہو اگر اس میں نفل کی نیت کرکے اس میں شامل ہو جائے تو اس کے لیے شرعا کوئی حرج نہیں ہے

    نماز تراویح میں بھی نابالغ شخص کی امامت مفتی  بہ قول کے مطابق جائز نہیں ہے

پوری تراویح میں صرف ایک مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھنا لازم ہے ورنہ قرأن ناقص رہ جائے گا البتہ ہر  ہر سورت کی شروع میں بسم اللہ آواز سے پڑھنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین سے ثابت نہیں ہے

تراویح میں قرأن کریم کم سے کم ایک مرتبہ ختم کرنا سنت ہے اللہ تبارک و تعالی پوری امت کی جانب سے سید نا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کو بے حد جزا عطا فرمائے کیوں کہ انہوں نے باجماعت تراویح اور قرأت قرآن کا اہتمام کا حکم دے کر قرآن کریم کی حفاظت کا ایک سبب مہیا فرما دیا

ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ رمضان المبارک کی پہلی شب میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے گزرے تو وہاں قرآن پڑھنے کی آپ کو آواز سنائی دی تو بے ساختہ ارشاد فرمایا کہ  اللہ تعالی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خبر کو نور سے منور کر دے جیسا کہ انہوں نے اللہ کے گھروں کو قرآن کریم کی تلاوت سے منور کر دیا

واقعہ یوں ہے کہ اگر اس انداز پر تراویح میں قران کریم سننے سنانے کا رواج نہ ہوتا تو کتنے ہی حفظ کرنے کے باوجود اپنی حفظ کو محفوظ نہ رکھ پاتے ۔تراویح میں سنانے یا سننے کی فکر کی وجہ سے سال میں کم سے کم ایک مرتبہ تمام حفاظ کرام قرآن کو یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن ضروری یہ ہے کہ پڑھنے والے اور سننے والے قرآن کریم کا آدب کا لحاظ ملحوظ رکھے

مگر آج کل اس انداز کو بہت سختی کے ساتھ برتا جا رہا ہے قرآن کو جلد سے جلد ختم کرنے کی شوق میں تجوید کا لحاظ نہیں کیا جا رہا ہے۔ بعض جگہ تین تین پارےپانچ پانچ پارے یا 15 15 پارے پڑھانے کا رواج چل رہا ہے لیکن یہ غلط نہیں ہے وجہ یہ ہے کہ اس میں تجوید اور غلطیوں کو درست نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ قرآن کریم کو ایسے ہی ختم کر کر چلتے جا رہے ہیں یہ قرآن کی  بہت بے ادبی اور توہین ہیں

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو کہنے سننے سے زیادہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور رمضان میں خوب خوب عبادت کرنے والا ہم کو بنائےاور مکمل قرآن شریف سننے والا ہم کو بنائے اور مغفرت کرنے والوں میں ہمارا شمار فرمائے

امین بجاہ طه و یاسین


 

تراویح کے مسائل

2 thoughts on “تراویح کے بعض رکعت چھوٹ جائے تو کیا حکم ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *