جب اسلام صرف نام قرآن صرف رسم رہ جائے گا
ایک وقت آئے گا: جب اسلام صرف نام قرآن صرف رسم رہ جائے گا”
تحریر: مکتبِ عرفان
ایک ایسا وقت آئے گا… جب نہ مساجد ہدایت کا سرچشمہ ہوں گی، نہ قرآن عمل کی کتاب، نہ علما امت کے خیرخواہ ہوں گے، نہ اسلام مکمل ضابطۂ حیات سمجھا جائے گا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی وہ پیش گوئی جو انہوں نے چودہ سو سال پہلے کی تھی، آج ہماری آنکھوں کے سامنے پوری ہو رہی ہے۔ انہوں نے فرمایا:
“يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ، وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ، مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى، عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ، مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيهِمْ تَعُودُ.”
(سنن الدارمی: 278)
ترجمہ
“ایک وقت ایسا آئے گا جب اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا، قرآن کا صرف رسم الخط (ظاہری شکل) باقی رہ جائے گا، ان کی مسجدیں آباد ہوں گی مگر ہدایت سے خالی ہوں گی، ان کے علما آسمان کے نیچے بدترین ہوں گے، انہی سے فتنے نکلیں گے اور انہی کی طرف لوٹیں گے۔”
اس حدیث کی معنویت آج ہمیں جھنجھوڑتی ہے۔ ہماری گلیوں، سڑکوں، شہروں میں بڑے بڑے اسلامی ناموں والے افراد نظر آتے ہیں۔ “عبداللہ”، “عبدالرحمٰن”، “محمد”، “فاطمہ”، “عائشہ” جیسے نام رکھنے والے لوگ، لیکن ان کی زندگی میں اسلام کہاں ہے؟ گھروں میں قرآن تو ہے، الماری میں رکھا ہوا، چوم کر سر پر رکھا جاتا ہے، خوش خط نسخ میں لکھا ہوا، سونے کے کناروں والے غلاف میں لپٹا ہوا — لیکن کیا اس قرآن کی آیتوں کا مطلب بھی ہم جانتے ہیں؟ کیا ہماری زندگی قرآن کے مطابق ہے؟ کیا ہمارے کاروبار، ہمارے تعلقات، ہماری عبادات، ہماری زبان، ہمارے فیصلے، قرآن کی روشنی میں ہیں؟
حضرت علیؓ کا فرمان سچ ثابت ہو رہا ہے: قرآن کا صرف رسم الخط باقی رہ گیا ہے، صرف “پڑھنا” رہ گیا، “سمجھنا” اور “عمل” ختم ہو گیا۔ جس قرآن کو اللہ تعالیٰ نے “ھُدًی لِّلنَّاسِ” (لوگوں کے لیے ہدایت) کہا تھا، وہ اب صرف تعویذوں، دعاؤں اور تجوید کی مشقوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
ہماری مسجدیں بے شک خوبصورت ہو چکی ہیں: marble کے ستون، قالین، air conditioning، بلند مینار، جگمگاتی روشنی، لیکن دل و دماغ ہدایت سے خالی ہیں۔ مسجدیں آباد ہیں، مگر نمازی گالی دینے والے، چغلی کرنے والے، رشوت لینے والے، سود کھانے والے، حلال و حرام کی تمیز کھو بیٹھے لوگ ہیں۔ مسجد کے اندر اللہ کے سامنے جھکنے والے، باہر جا کر انسانوں کے سامنے جھکتے نظر آتے ہیں۔ اذان کی آواز آتی ہے، مگر دل نہیں دھڑکتا، نماز کا وقت ہوتا ہے، مگر کاروبار نہیں رکتا۔
اور علما؟ افسوس! علما امت کے وارث کہلاتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
“علماء زمین پر انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔” (سنن ابو داؤد)
مگر آج کے بہت سے علما یا تو حکمرانوں کے دربار میں بیٹھے ہوئے ہیں، یا سرمایہ داروں کے مفادات کی حفاظت میں لگے ہوئے ہیں۔ دین کو بیچ کر دنیا کماتے ہیں، فتویٰ فروشی عام ہو چکی ہے، حق بات کہنے والے کم، حق چھپانے والے زیادہ ہیں۔ ان کے منہ سے نکلنے والے فتنے عوام کے ایمان کو کھا جاتے ہیں۔ کچھ علما لوگوں کو دنیا پرستی سکھاتے ہیں، کچھ رسم و رواج کو دین بنا دیتے ہیں، کچھ اپنے فرقے کی عظمت کے لیے دین کو توڑ مروڑ دیتے ہیں۔
اور یہی وہ طبقہ ہے جس کے بارے میں حضرت علیؓ نے فرمایا: “ان ہی سے فتنے نکلیں گے اور انہی میں واپس آئیں گے۔”
آج جب ہم امت کی حالت دیکھتے ہیں تو سمجھ آتا ہے کہ اس حدیث میں کیسی حکمت ہے۔ مسلمان مسلمان تو ہے، مگر اس کے پاس نہ ایمان کی کیفیت ہے، نہ اعمال کی خوبصورتی۔ اس کی زندگی سے اللہ نکل چکا ہے، ذکر نکل چکا ہے، دعا کی تاثیر ختم ہو چکی ہے، اور سب سے بڑا المیہ یہ کہ اللہ کا “اسم” — یعنی اللہ کا “ذکر” — دل سے نکل چکا ہے۔
“اسم اللہ” یعنی “اللہ” کا ذکر صرف زبان پر رہ گیا ہے۔ دل میں اس کا احساس، روح میں اس کی حرارت، آنکھوں میں اس کا خوف — سب ختم ہو چکا ہے۔ جس ذکر سے دل زندہ ہوتے تھے، وہ اب صرف تسبیح کے دانے گننے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ دل بے ذکر ہو چکے ہیں، اس لیے زندگی بے نور ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
“أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ”
“خبردار! دلوں کا اطمینان صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔”
(سورۃ الرعد: 28)
جب ذکر ترک کیا گیا، تو دل سخت ہو گئے۔ جب دل سخت ہو گئے، تو گناہ آسان ہو گئے۔ جب گناہ عام ہو گئے، تو برکتیں ختم ہو گئیں۔ اور جب برکتیں گئیں، تو فتنے غالب آ گئے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسی حالت میں رہیں گے؟ کیا ہم اس گمراہی کو اپنی تقدیر مان لیں گے؟ یا ہم جاگیں گے؟
ہمیں قرآن کو صرف پڑھنے کی چیز نہیں، بلکہ “سمجھنے” اور “اپنانے” کی کتاب بنانا ہوگا۔ قرآن ہماری گفتگو، ہمارے فیصلوں، ہمارے تعلقات، ہماری معیشت، ہماری سیاست — ہر شے کا مرکز ہو۔ قرآن صرف تراویح کی محفلوں میں نہیں، ہمارے گھروں، اسکولوں، عدالتوں اور بازاروں میں زندہ ہو۔
ہمیں مسجدوں کو صرف عبادت کی جگہ نہیں، بلکہ ہدایت، علم، اخلاص اور امت کی اصلاح کا مرکز بنانا ہوگا۔ اور ہمیں علمائے دین سے سچ کا تقاضا کرنا ہوگا۔ انہیں عزت دیں، لیکن ان سے حق کا مطالبہ بھی کریں۔ انہیں اپنا ناصح بنائیں، نہ کہ صرف مداح۔
اور سب سے بڑھ کر، ہمیں اپنے دلوں کو پھر سے ذکر اللہ سے زندہ کرنا ہوگا۔ “اللہ، اللہ” کرتے کرتے ہماری روح کو پھر وہ جلا ملے، جو صحابہ کرام کو ملا کرتی تھی۔ وہ ذکر جس سے آنکھوں میں آنسو آتے تھے، دل لرز جاتے تھے، وہ دوبارہ ہمیں اپنانا ہوگا۔
ہمیں وہ دعائیں پھر سے مانگنی ہوں گی جو رسول اللہ ﷺ مانگا کرتے تھے
“اَللّٰهُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ”
“اے اللہ! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھ۔”
یہ ذکر صرف لفظی نہیں، عملی بھی ہو۔ دن بھر کے کاموں میں، کاروبار میں، سوشل میڈیا میں، ہر جگہ دل اللہ کے ذکر سے آباد ہو۔ استغفار، توبہ، سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر — یہ صرف زبان کے کلمات نہیں، بلکہ دل کی دھڑکنیں بن جائیں۔
جب تک ہم قرآن کو عمل کا مرکز، مسجد کو ہدایت کا منبع، علما کو ناصح، اور ذکر کو دل کی غذا نہیں بنائیں گے — تب تک ہم اس حدیث کا مصداق بنے رہیں گے، جس میں حضرت علیؓ نے فرمایا:
“اسلام کا صرف نام رہ جائے گا… قرآن کا صرف رسم… مسجدیں آباد مگر ہدایت سے خالی… علما بدترین… اور فتنے انہی سے۔”
اب بھی وقت ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ہر چیز بدل سکتی ہے۔ ہمیں صرف خلوص، توجہ، ذکر، اور علمِ صحیح کی ضرورت ہے۔