جب موسیٰؑ نے ہارونؑ کی داڑھی تھامی
نبوت، غیرت اور حکمت کا ایک عظیم درس
(قرآن میں بیان کردہ وہ لازوال واقعہ جو آپ کو عدل، صبر اور توحید کی گہرائیوں سے روشناس کرائے گا!)
کچھ واقعات وقت کی قید سے آزاد ہوتے ہیں، وہ صدیوں کا سفر طے کر کے ہم تک پہنچتے ہیں اور آج بھی ہمارے دلوں پر گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ آج ہم اسلامی تاریخ کے ایک ایسے ہی اہم واقعے کا ذکر کریں گے جو خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرمایا ہے۔ یہ واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے برادرِ بزرگ حضرت ہارون علیہ السلام کی عظیم رفاقت، نبوت کے جلال اور اللہ کی توحید کی غیرت کا ایسا بے مثال نمونہ ہے جو ہر قاری کو متاثر کرتا ہے۔ یہ اس وقت کا قصہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر اپنے رب سے کلام کرنے اور تورات کی مقدس تختیاں لینے گئے تھے، اور ان کی قوم بنی اسرائیل پیچھے ایک خوفناک گمراہی کا شکار ہو چکی تھی…
کوہِ طور سے واپسی اور ایمانی غیرت کا اظہار
تصور کریں! حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے حضور کوہِ طور پر کھڑے ہیں، وحی کا نزول ہو رہا ہے اور وہ تورات کی الواح وصول کر رہے ہیں۔ ادھر زمین پر ان کی قوم، جسے وہ مصر کی غلامی سے نکال کر لائے تھے اور جس پر اللہ نے بے شمار انعامات کیے تھے، سامری نامی ایک فتنے کے باعث ایک سنہرے بچھڑے کو اپنا معبود بنا بیٹھی ہے۔ رب العزت نے حضرت موسیٰؑ کو اس عظیم گناہ کی خبر دی: “ہم نے تمہاری قوم کو تمہارے بعد فتنے میں ڈال دیا ہے اور سامری نے انہیں گمراہ کر دیا ہے۔” (سورہ طٰہٰ: 85)
یہ سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں غم اور غیرت کا ایک طوفان برپا ہو گیا۔ وہ فوراً کوہِ طور سے واپس اپنی قوم کی طرف پلٹے۔ جب انہوں نے اپنی آنکھوں سے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی پوجا کرتے دیکھا، تو ان کا ایمانی جلال اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔
شدتِ غضب میں آپ نے تورات کی مقدس تختیاں زمین پر رکھ دیں، اور ان کی نظر سب سے پہلے اپنے بھائی اور ساتھیِ نبوت، حضرت ہارون علیہ السلام پر پڑی۔ یہ غصہ کسی ذاتی رنجش کا نہیں تھا، بلکہ اللہ کے دین اور اس کی توحید کی پامالی پر ایک نبی کا فطری اور شدید ردِ عمل تھا۔
قرآن پاک اس لمحے کی کیفیت یوں بیان کرتا ہے
قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا ﴿٩٢﴾ أَلَّا تَتَّبِعَنِ ۖ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي ﴿٩٣﴾
“موسیٰ نے کہا: ‘اے ہارون! جب تم نے انہیں گمراہ ہوتے دیکھا تھا تو کس چیز نے تمہیں روکا کہ تم میری پیروی کرتے؟ کیا تم نے میرے حکم کی نافرمانی کی؟'” (سورہ طٰہٰ: 92-93)
مفسرین کے مطابق، اسی شدتِ جذبات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی مبارک اور سر کے بال پکڑ لیے تھے۔ یہ ان کی بے پناہ ناراضی، صدمے اور سوال کی شدت کا اظہار تھا۔
بھائی کا جواب: حکمت اور دور اندیشی کا پیکر
حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے بھائی کے جلال اور غصے کی وجہ کو بخوبی سمجھا۔ انہوں نے نہایت بردباری، وقار اور حکمت سے جواب دیا
قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي ﴿٩٤﴾
“ہارون نے کہا: ‘اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی نہ پکڑو اور نہ میرے سر کے بال۔ مجھے یہ ڈر تھا کہ کہیں تم یہ نہ کہو کہ تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔'” (سورہ طٰہٰ: 94)
یہاں حضرت ہارون علیہ السلام کی بصیرت اور حکمتِ عملی کھل کر سامنے آتی ہے۔ انہوں نے قوم کو بچھڑے کی پوجا سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی، لیکن بنی اسرائیل اس قدر سرکش ہو چکے تھے کہ ان پر کوئی زور نہیں چلا۔ اگر وہ اس وقت مزید سختی کرتے یا طاقت کا استعمال کرتے تو قوم آپس میں بٹ جاتی، ایک بڑا فساد اور خانہ جنگی برپا ہو سکتی تھی، جو بنی اسرائیل کے لیے مزید تباہ کن ثابت ہوتی۔ حضرت ہارون علیہ السلام کو یہ اندیشہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی پر کہیں وہ یہ نہ کہیں کہ ہارون نے میری غیر موجودگی میں قوم میں تفرقہ ڈال دیا اور میرے آنے کا انتظار نہیں کیا۔ انہوں نے قوم کے اندرونی اتحاد اور امن کو بچانے کو ترجیح دی، تاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی پر وہ خود حالات کو سنبھال سکیں۔
اس واقعے سے حاصل ہونے والے قیمتی اسباق
یہ قرآنی واقعہ محض ایک قصہ نہیں، بلکہ ہر دور کے انسانوں، خصوصاً قائدین اور دین کے داعیوں کے لیے ایک گہرا درس ہے۔
توحید کی عظمت: یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ کی وحدانیت اور اس کے احکامات کی پیروی سب سے مقدم ہے۔ شرک ایک ایسا سنگین گناہ ہے جس پر ایک نبی بھی بے انتہا غضبناک ہوتا ہے۔
قیادت میں جلال اور حکمت کا توازن: حضرت موسیٰؑ کا جلال اور حضرت ہارونؑ کی حکمت، دونوں ہی اپنی جگہ درست اور ضروری تھیں۔ کبھی حالات جلال کا تقاضا کرتے ہیں اور کبھی حکمت و بردباری سے کام لینا پڑتا ہے۔ ایک سچا قائد ان دونوں میں توازن قائم رکھتا ہے۔
غصے کا درست استعمال: حضرت موسیٰؑ کا غصہ ذاتی نہیں تھا، بلکہ اللہ کے دین کی بے حرمتی پر تھا۔ یہ غصہ قابلِ تحسین ہے جب اسے حق کے لیے اور صحیح مقصد کے لیے استعمال کیا جائے۔
باہمی احترام اور اخوت: اس واقعے میں ہمیں بھائیوں اور ساتھیوں کے درمیان گہرے احترام کی جھلک بھی ملتی ہے۔ حضرت ہارونؑ نے نرمی سے جواب دیا اور حضرت موسیٰؑ نے بعد میں ان کے دلائل کو قبول کیا، جو ان کے رشتے کی مضبوطی اور ایک دوسرے پر اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔
مشکل وقت میں حکمتِ عملی: حضرت ہارونؑ کا فیصلہ، اگرچہ بظاہر کمزوری لگ سکتا تھا، درحقیقت ایک بڑی حکمت پر مبنی تھا۔ انہوں نے بڑے فتنے کو ٹالا اور قوم کو مزید بٹنے سے بچایا، جو اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ دین کا تحفظ محض ظاہری طاقت سے نہیں ہوتا، بلکہ دلوں کی غیرت، حکمت، بصیرت اور اللہ پر کامل توکل سے ہوتا ہے۔ یہ عظیم واقعہ قیامت تک حق اور باطل کے فرق کو واضح کرتا رہے گا اور مومنین کے لیے رہنمائی کا ذریعہ رہے گا۔