جھوٹی امیدیں اور جہالت

جھوٹی امیدیں اور جہالت جھوٹی امیدیں اور جہالت

جھوٹی امیدیں اور جہالت

یہودی معاشرے سے سبق، مسلمانوں کے لیے عبرت

قرآن پاک میں یہود کے عام لوگوں کی ایک بڑی خامی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت 78 میں ارشاد ہے: “اور بعض ان میں بے پڑھے ہیں کہ خبر نہیں رکھتے کتاب کی، سوائے جھوٹی آرزوؤں کے، اور ان کے پاس کچھ نہیں، مگر خیالات۔” یہ آیت پچھلی آیات کا تسلسل ہے جہاں یہودی علماء پر اللہ کے کلام میں تحریف کرنے اور سچے علم کو چھپانے کا الزام تھا۔ یہاں بتایا گیا ہے کہ ان علماء کی وجہ سے عوام میں کیا بگاڑ پیدا ہوا: وہ انہیں لفظی گورکھ دھندوں میں الجھا کر بے بنیاد خواہشات اور آرزوئیں پیدا کرتے تھے اور پھر انہیں بیچ کر مالی فائدے حاصل کرتے تھے۔

یہود کی جہالت اور بے بنیاد آرزوئیں

یہودی معاشرے کے عام افراد میں دو بنیادی خامیاں تھیں:

 علم سے دوری: وہ اللہ کی سچی کتاب تورات کے علم سے بالکل محروم اور ناواقف تھے۔ ان کے پاس حقیقی علم کی کوئی بنیاد نہیں تھی۔

* خیالی پلاؤ: ان کے پاس صرف بے بنیاد تمنائیں اور آرزوئیں تھیں، حقیقت پر مبنی کچھ بھی نہیں۔

یہودی معاشرے کا یہ بگاڑ اس وقت عروج پر تھا جب ان کے علما ایک طرف اصلی علم کو مسخ کر رہے تھے اور دوسری طرف عوام تورات کے احکامات پر عمل کرنے کے بجائے محض خیالی دنیا میں مگن تھے۔ علمائے سوء انہی آرزوؤں کو اپنا سرمایہ بنا کر اپنے مادی مفادات پورے کرتے تھے۔

علم و عمل کی اہمیت: خالی امیدوں کی نفی

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ علم و عمل کی اہمیت پر زور دیا ہے اور محض آرزوؤں کی نفی کی ہے۔ سورۃ النساء کی آیت 123 میں فرمایا گیا ہے: “نہ تمھاری اُمیدوں پر مدار ہے، نہ اہل کتاب کی اُمیدوں پر۔ جو کوئی بُرا کام کرے گا، اُس کی سزا پاوے گا۔ اور نہ پاوے گا اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی اور نہ اپنا کوئی مددگار۔ اور جو کوئی کام کرے اچھے، مرد ہو یا عورت اور ایمان رکھتا ہو، سو وہ لوگ داخل ہوں گے جنت میں، اور ان کا حق ضائع نہ ہوگا تِل بھر۔”

حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کا یہ خیال تھا کہ وہ اللہ کے خاص بندے ہیں، اس لیے انہیں ان گناہوں پر نہیں پکڑا جائے گا جن پر عام لوگ پکڑے جائیں گے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے پیغمبر ان کی شفاعت کریں گے۔ نادان مسلمان بھی بسا اوقات ایسے ہی خیالات اپنا لیتے تھے۔ اس پر اللہ نے واضح فرمایا کہ نجات اور ثواب کسی کی امید یا خیال پر منحصر نہیں، جو بھی برا کرے گا اسے سزا ملے گی۔ اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں، جب اللہ کسی کو پکڑے تو صرف وہی چھڑا سکتا ہے۔

بے علمی کے سماجی نتائج: توہمات کا راج اور گہرا زوال

جب کسی معاشرے سے علم و شعور اور اس پر مبنی صحیح عمل رخصت ہو جاتا ہے اور صرف جھوٹی تمنائیں اور آرزوئیں باقی رہ جاتی ہیں، تو پھر بے معنی خیالات اور توہمات چھا جاتے ہیں۔ حقائق کی جگہ محض اندازے اور گمان لے لیتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں معاشرے گہرے زوال کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

اس کی مثال مشرکین مکہ کے بارے میں سورۃ النجم کی آیت 28 میں ملتی ہے: “اُن کے پاس کچھ بھی علم نہیں ہے۔ وہ صرف گمان اور وہم کی اتباع کرتے ہیں۔ اور ظنون و اوہام حق واضح کرنے میں کچھ بھی فائدہ نہیں دیتے۔”

ایک اور جگہ، سورۃ الانعام کی آیت 148 میں، لوگوں پر دلائل کی روشنی میں حجت قائم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “آپ کہہ دیجیے! کیا تمھارے پاس کچھ علم ہے؟ کہ تم اُسے ہمارے سامنے پیش کرو۔ تم تو صرف ظن و گمان کی پیروی کرتے ہو۔ اور صرف اٹکل اور تخمینے لگاتے ہو۔ کہہ دیجیے کہ (سچے علم کی بنیاد پر) اللہ کی حجت اور دلائل پورے ہوچکے ہیں۔”

اقوام کی ترقی اور تنزلی کا اصول

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے علم و شعور کی اہمیت کو نمایاں کیا ہے۔ ایسا علم و شعور جو صحیح عمل اور سیدھی راہ کی رہنمائی کرے۔ انسانی معاشرے حقیقی علم و شعور سے ہی ترقی کرتے ہیں۔ صحیح علم کی بنیاد پر کیے گئے اعمال ہی کسی قوم کی ترقی اور کامیابی کے ضامن ہوتے ہیں۔ ان آیات میں دوسری حقیقت یہ بھی واضح کی گئی ہے کہ محض تمناؤں، آرزوؤں اور لغو خیالات سے کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی۔

یہودی معاشرے کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا؛ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم پیغمبر کے بلند علم اور بہترین سیاسی نظم و نسق کے باوجود اس قوم کے علما اور عوام گھور زوال کا شکار ہوئے۔ وہ قوموں کی قیادت سے محروم ہو کر ذلت کی پستیوں میں گر گئے۔

مسلمانوں کے لیے سبق: زوال سے بچنے کا راستہ

قرآن حکیم نے ان آیات میں یہودی معاشرے کی ان خامیوں کو بیان کرکے دراصل مسلمانوں کے سامنے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ اگر وہ بھی یہودیوں کے نقش قدم پر چلیں گے، یعنی علمی حقائق کو نظر انداز کر کے محض خیالی آرزوئیں پالیں گے، اور فضول نظریات کے اسیر ہوں گے تو ان کے لیے بھی زوال یقینی ہے۔

جب کسی قوم کے قائدین علمی حقائق کو مسخ کرنے لگیں، اصل علم کو چھپا کر غلط اعداد و شمار کے ذریعے فائدے اٹھانے لگیں، اور عام لوگ ان کے الجھاؤ میں آکر محض تمنائیں پالنے لگیں، بے معنی خیالات یا مفاد پرست گروہوں کے پیچھے بھاگنے لگیں، تو یقیناً ایسے معاشرے دنیا اور آخرت میں سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ حاصل نہیں کرتے۔ افسوسناک طور پر، آج کل کے مسلمان معاشروں کا بھی یہی حال ہے۔ انہیں اپنے غلط افکار و نظریات پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔ یہ آیات ہمیں جھنجھوڑتی ہیں کہ ہم بے علمی پر مبنی فرسودہ رویے چھوڑیں اور قرآنی علم و فکر سے مضبوط وابستگی اور گہرا شعور پیدا کر کے صحیح سوچ اپنائیں تاکہ اپنے معاشروں کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔


ہم کون ہیں؟

سورة الكافرون

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *