جہاد کی فضیلت
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(41)
تم مشقت اور آسانی ہر حال میں کوچ کرو اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم جانو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
{اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا:تم مشقت اور آسانی ہر حال میں کوچ کرو۔} یعنی چاہے تم اس حالت میں ہو کہ جہاد کرنا تم پر آسان ہے یا اس حالت میں ہو کہ جہادکرنا تم پر بھاری ہے بہر حال کوچ کرو۔ مفسرین نے ’’خِفَافًا ‘‘ اور ’’ثِقَالًا ‘‘ کے بہت سے معنی بیان فرمائے ہیں۔ (1)تمہارے لئے نکلنے میں آسانی ہو یا مشقت۔ (2) اہل و عیال کم ہوں یا زیادہ۔ (3) اسلحہ کم ہو یا زیادہ۔ (4) سوار ہو کر نکلو یا پیدل۔ (5) جوان ہو یا بوڑھے۔ (6) طاقتور ہو یا کمزور۔ (7) بہادر ہو یا بزدل۔ (8) صحت مند ہو یا مریض۔ (9) خوشی سے نکلو یا ناخوشی سے۔ (10) مالدار ہو یا فقیر۔ (11) فارغ ہو یا کسی کام میں مصروف، خلاصہ یہ ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب اور جن مسلمانوں کو جہاد کے لئے بلائیں تو انہیں جہاد میں جانا ضروری ہے چاہے وہ کسی بھی حال میں ہوں۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۶ / ۵۵، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۲ / ۲۴۴، ملتقطاً)
جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من آمن بالله ورسوله وأقام الصلاة وصام رمضان كان حقا على الله أن يدخله الجنة جاهد في سبيل الله أو جلس في ارضه التي ولد فيها قالوا أفلا نبشر به الناس قال إن في الجنة ماٰئۃ درجة أعدها الله للمجاهدين في سبيل الله ما بين الدرجتين كما بين السماء والأرض فإذا سألتم الله فاسألوہ الله الفردوس فإنه أوسط الجنة وأعلى الجنة وفوقه عرش الرحمن ومنه تفجر انهار الجنة۔(رواہ البخاری)
ترجمہ
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالی اور اس کے ذریعہ دنیا میں بھیجی( یعنی شریعت) پر ایمان لایا اور نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالی پر واجب ہے کہ وہ اس شخص کو جنت میں داخل کرے،خواہ اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرے خواہ اپنے وطن و گھر میں جہاں پیدا ہوا ہے بیٹھا رہے”جب صحابہ نے یہ بات سنی تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ خوشخبری ہم لوگوں کو نہ سنا دیں؟تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں سو درجے ہیں جن کو اللہ تعالی نے ان لوگوں کے لیے تیار کیا ہے جو خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور ان کے دو درجوں کا درمیانی فاصلہ اتنا ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان فاصلہ ہے، لہذا جب تم اللہ سے مانگو تو فردوس(یعنی جنت الفردوس) کو مانگو کیوں کہ وہ اوسط جنت ہے، اور سب سے بلند جنت ہے اور اس کے اوپر خدا کا عرش ہے، اور وہیں سے جنت کی نہریں بہتی ہیں( یعنی جو چار چیزیں جنت کی نہروں کی اصل ہے جیسے پانی دودھ شراب اور شہد) وہ جنت الفردوس ہی سے جاری ہوتی ہے ۔
کچھ باتیں
أو جلس في بيته”
گھر میں بیٹھے رہنے اور جہاد پر نکلنے میں یہ اختیار اس وقت ہوتا ہے جب جہاد فرض کفایہ کے درجے میں ہو،اگر جہاد فرض عین کے درجے میں ہو جائے یا امیرالمومنین کی طرف سے نفیر عام یعنی نکلنے کا عمومی اعلان ہو جائے اس وقت جہاد میں نکلنا ہی ہوگا۔
جب صحابہ نے کہا (قالو)یہ سوال حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ نے کیا تھا،آپؓ نے جب سنا کہ جہاد کرنے کے بغیر بھی جنت میں جانا ممکن ہے تو آپؓ نے اس سہولت کی خوشخبری عام کرنے کی درخواست کی ،اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ لوگوں کو چھوڑدو تاکہ جہاد کے عمل میں لگے رہے کیوں کہ جنت کے عالیشان درجات جہاد سے حاصل ہوں گے ۔
=============================================
ایک ضروری اعلان
آپ حضرات اگر قرآن مجید یا دینی معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان لائن کلاس بھی دستیاب ہے بہترین اساتذہ کی نگرانی میں
مکمل تفصیل کے لیے اس پر رابطہ کریں
فون نمبر یا ای میل 7794006381