حرام کے شراکت دار
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ- وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(29)
اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو اوراپنی جانیں قتل نہ کرو بے شک اللہ تم پر مہربان ہے
… تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ارشاد فرمایا:’’اے سعد! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ بہترہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ محمد، ۵ / ۳۴، الحدیث: ۶۴۹۵)
:ایک دن ایک حکمران اپنے محل کے بلند و بالا کمرے میں آرام فرما رہا تھا کہ باہر سے ایک دیہاتی کی صدا سنائی دی
“!سیب لیجیے! تازہ سیب
حاکم نے کھڑکی سے جھانکا تو دیکھا کہ ایک یمنی کسان — چہرے پر دھوپ سے جھلسی جھریاں، سادہ عمامہ اور گرد آلود چغہ پہنے — اپنے نحیف گدھے پر دونوں طرف دو ٹوکریاں لادے بازار کی طرف جا رہا ہے، جن میں سرخ و رسیلے سیب بھرے ہوئے ہیں۔
:بادشاہ کے دل میں سیب کھانے کی خواہش جاگی۔ اُس نے وزیر کو بلایا اور حکم دیا
“!خزانے سے پانچ سونے کے سکے لے لو اور میرے لیے ایک بہترین سیب لاؤ
:وزیر نے خزانے سے پانچ سکے نکالے اور اپنے معاون سے کہا
“یہ چار سونے کے سکے لے لو، اور بادشاہ سلامت کے لیے ایک سیب خرید لاؤ۔
:معاون نے تین سکے رکھے، باقی محل کے منتظم کو دیے اور کہا
“یہ تین سونے کے سکے لے لو، اور ایک سیب لاؤ۔
:محل کے منتظم نے دو سکے رکھے، اور چوکیداری کے منتظم کو بلایا اور کہا
“یہ دو سکے لے جاؤ اور فوراً ایک سیب لاؤ۔
چوکیدار کے منتظم نے ایک سکہ گیٹ پر موجود سپاہی کو دیا اور کہا ؛
“سنو! یہ لو ایک سونے کا سکہ، اور وہ جو گلی کے کونے میں سیب بیچ رہا ہے، اُس سے سارے سیب خرید لو
:سپاہی تیزی سے باہر نکلا، مگر سکہ دینے کے بجائے سیب فروش کو گریبان سے پکڑ کر دہاڑا
“!او نادان دیہاتی! تجھے خبر نہیں کہ یہ شاہی محل ہے؟ تیری بلند آواز نے حضورِ والا کی نیند میں خلل ڈال دیا ہے۔ اب مجھے حکم ہے کہ تجھے قید کر دوں
:بیچارہ دیہاتی تھر تھر کانپنے لگا، اور ہاتھ جوڑ کر گِڑگڑایا
“حضور! میری خطا معاف کیجیے!… یہ گدھا میری ایک سال کی محنت سے کمائے گئے سیبوں کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔ یہ سیب لے لیجیے مگر مجھے قید نہ کیجیے
سپاہی نے جلدی سے دونوں ٹوکریاں قبضے میں لیں، کچھ سیب خود رکھے، باقی چوکیدار کے منتظم کو دیے۔
:اس نے اُن میں سے چند سیب رکھے اور باقی اوپر کے افسر کو دے دیے، ساتھ کہا
“یہ وہ سیب ہیں جو ایک سونے کے سکے میں خریدے گئے ہیں۔
:افسر نے سیبوں میں سے کچھ اپنے لیے چُنے اور باقی محل کے منتظمِ اعلیٰ کو بھیجے، کہہ کر
“یہ دو سونے کے سکوں والے سیب ہیں۔
:منتظمِ اعلیٰ نے سیبوں کو دیکھا، کچھ چکھا، باقی اسسٹنٹ وزیر کو دیے اور کہا
“یہ تین سکوں کے سیب ہیں۔
:اسسٹنٹ وزیر نے کچھ سیب رکھے، باقی وزیر کے حوالے کیے اور کہا
“یہ سیب چار سونے کے سکوں کے بدلے حاصل کیے گئے ہیں۔
:وزیر نے آخری پانچ سیب بچا کر حکمران کی خدمت میں پیش کیے اور عرض کیا
“!بادشاہ سلامت! آپ نے ایک سیب کا کہا تھا، مگر اس نے پانچ سونے کے سکوں کے بدلے یہ پانچ سیب دیے ہیں
:حاکم نے سیبوں کو دیکھ کر مسکرا کر کہا
“!میرے دور میں کسان واقعی خوشحال ہیں! ہر سونے کے سکے کے بدلے ایک سیب! اب وقت آ گیا ہے کہ ٹیکس میں مزید اضافہ کیا جائے تاکہ ہم شاہی اخراجات پورے کر سکیں
چند ہی دنوں میں عوام پر ایسے بھاری ٹیکس لگے کہ مزدور روٹی کو ترسنے لگے، کسان قرض میں ڈوبنے لگے، اور بازار بے رونق ہو گئے۔
اور پھر… عوام میں غربت بڑھتی چلی گئی۔
جیسا کہ امام ابو حامد الغزالیؒ نے احیاء علوم الدین میں فرمایا ؛
“الظلم أساس الخراب، وإن دقّ، فإن الصغير منه يجرّ إلى الكبير، ويصير عادة، فتهلك البلاد والعباد.”
:ترجمہ
ظلم تباہی کی بنیاد ہے، اگرچہ معمولی ہو۔ کیونکہ چھوٹا ظلم بڑے ظلم تک لے جاتا ہے، پھر وہ عادت بن جاتا ہے، اور اس کے نتیجے میں ملک اور عوام دونوں ہلاک ہو جاتے ہیں۔
:اور ایک اور مقام پر لکھتے ہیں
“ينبغي للسلطان أن يحتاط في أمر الرعية حتى في الأمور الصغيرة، فإن التهاون فيها يفتح باب الفساد.”
:ترجمہ
“سلطان کو چاہیے کہ رعایا کے معاملات میں چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی احتیاط کرے، کیونکہ ان میں غفلت فساد کا دروازہ کھول دیتی ہے۔”
:سبق
ظلم صرف تلوار سے نہیں ہوتا، کبھی کبھی ایک سکہ بھی ظلم کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
معمولی بدعنوانی جب مسلسل نظرانداز کی جائے تو وہ نظام کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔
عدل کے بغیر حکومت قائم رہ سکتی ہے، لیکن ظلم کے ساتھ کبھی نہیں۔
جو حکمران فقط اطلاع پر فیصلہ کرتا ہے مگر تحقیق نہیں کرتا، وہ عوام کے مقدر سے کھیلتا ہے۔
——————————————————————————————————————————
The equipment is a hundred years old, not a moment’s notice.