حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی کو دیکھو
آپ رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی عبد اللہ، کنیت ابوبکر اور لقب صدیق اور عتیق ہیں۔ آپ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ ہے، والدہ کا نام سلمیٰ اور کنیت ام الخیر ہے۔ آپ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو تمیم سے ہے۔ عہد جاہلیت میں آپ کا نام عبد الکعبہ تھا، جو حضور ﷺ نے بدل کر عبد اللہ رکھ دیا تھا۔
تاریخ مشائخ نقشبندیہ از پروفیسر صاحبزادہ محمد عبد الرسول للہی جلد 1 صفحہ 111
۔ پیدائش:
حضرت ابو بکر صدیق کی پیدائش عام الفیل سے دو سال چھ ماہ بعد اور ہجرت نبوی سے پچاس سال چھ ماہ پہلے بمطابق 573 عیسوی مکہ میں ہوئی۔ آپ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ سے دو سال چھ ماہ چھوٹے تھے۔
سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 37
جس دن کلمہ پڑھا 40 ہزار دینار تھے۔اور کلمہ پڑھے ابھی چند مہینے گزرے تھے سارے مصطفی کے قدموں پہ قربان کر دیا۔ پھر مال کمایا پھر چار ہزار دینار تھے ۔(چار ہزار) جس دن ہجرت کے لیے نکلےچار ہزار تھے ۔(“انہیں بھی پتہ تھا ڈھائی فیصد دینا چاہیے ان کی بھی بیٹیاں تھیں ۔جوان بھی تھی چھوٹی بھی تھی ان کے بھی بچے تھے “)لیکن دین کو ضرورت ہے میرے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو حاجت ہے ۔تو فرماتے ہیں اشرفیاں تھی میرے گھر میں پیسے تھے درہم تھے دینار تھے میرے والد بوڑھے تھے ۔ان کو خیال تھا کہ ابوبکرؓ ساری دولت نہ لے جائیں۔ تو حضرت اسماء بنت ابی بکر سے ابو بکر صدیق ؓنے کہا ،کہ اوپر ٹاٹ ڈال دینا ۔والد نابینا ہیں ۔اگر پوچھے نا پیسے کہاں ہے۔تو ان کا وہاں ہاتھ لگا دینا انہیں پتہ چلےگا ابوبکرؓ سارا مال لے کے نہیں گیا۔فرماتے ہیں میں ہجرت پہ جانے لگا ۔تو چار ہزار سارے ہی لے گیا ۔”یاروں”آج ڈھائی فیصد کے لیے رٹا پڑا ہوا ہے ۔(ڈھائی فیصد کے لیے)” لوگ بحث کر رہے ہیں ڈھائی فیصد کے لیے دلائل چاہیے کئی کئی مفتیان کرام سے پوچھیں گے پھر پروگرام بنائیں گے دینا ہے یہ نہیں ۔۔اور جس دن تبوک کے لیے میرے مصطفی کریم ﷺنے اعلان کیا ۔جناب صدیق اکبرؓ فرماتے ہیں شے ہی کوئی نہیں تھی غربت کے دن تھے،، کمزوریاں تھی اس دن کاروباری حالات کم تھے۔(“یہاں لوگوں کا کاروبار جب ڈاؤن ہوتا ہے تو سب سے پہلے مسجد کا چندہ بند کرتے سب سے پہلے مدرسہ کا چندہ بند کرتے ہیں سب سے پہلے خواہش کرتے ہیں کہ وہ جوغریب کو جاتا ہے نا اس کو بند کرو یہ زیادہ نقصان دے رہا ہے”)حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں،حالات خراب تھے۔ جیب دیکھی تو اتنے پیسے نہیں تھے کہ مصطفی کریمﷺ کو پیش کر سکوں تو پھر کیا کیا۔ امام جلال الدین سیوطی کہتے ہیں۔ابوبکر صدیقؓ نے گھر کے اندر کپڑا بچھایا اور پھر صدیق اکبرؓ نے کیا کیا ۔کہ توا بھی رکھا برتن بھی رکھے اس پہ چولہا بھی رکھا،ابوبکر صدیقؓ نے آپنے گھر والوں سے کہا ۔کہ ایک ایک جوڑا پہن لواور باقی سارے جوڑے بھی یہاں رکھو۔اور پھر جب بچوں نے دیکھا کہ ابا تو کپڑے بھی رکھوا رہا ہے کیا بنے گا۔۔فرمایا تمہیں تو ایک ایک جوڑے کی اجازت دے رہا ہوں،، ذرا میری طرف دیکھو۔ خود اندر گئے ٹاٹ کا لباس پہن کے کپڑے بھی اتار کے رکھ دیے سارا کچھ باندھا۔لباس ٹاٹ کا ہرچیز لپیٹ کے نبی کریم کی بارگاہ میں لے گئے۔میرے محبوبﷺ کا بھی اندازدیکھو ۔فرمایا گھر بھی کوئی چھوڑ کےآئےہو۔لیکن میرے رسول پا ﷺکے لفظ دیکھیں فرمایا۔ابو بکرؓسجنا گھرکیا چھوڑ کے آئے ہو۔توروپڑے کہنے لگے،یا رسول اللہ میں کوئی غریب تونہیں۔میں بڑا مالدار ہوں۔ گھر اللہ بھی چھوڑآیا ہوں اللہ کا رسول بھی چھوڑآیا ہوں۔حضورﷺ میں کوئی کنگال نہیں میں مصطفی والا ہوں۔میں کو غریب نہیں میں نبی والا ہوں میں رب رسول کو گھر چھوڑ آیا ہوں۔میرے مصطفی کریم علیہ السلام فرمانے لگے،تیر پیچھے جبرائیل آمین کھڑے اور انہوں ؑنے ٹاٹ کا لباس پہنا ہوا ہے۔اور تیرےؓآنے سے پہلے وہ آگئے تھے۔تومیں نے پوچھا جبرائیلؑ یہ بوریے کا لباس۔عرض کی یا رسول اللہ ابوبکر ؓنے پہنا ہے تو رب کو اتنا پسند آیا۔سارے فرشتوں کو پہنا دیا ہے سارے فرشتوں کو پہنا دیا سارے فرشتوں۔(“جب ڈھائی فیصد پہ جھگڑا ہوتا ہے نہ تو پھر نماز میں مزہ نہیں آتا۔جب تو ڈھائی فیصد پہ بھی اڑارہتا ہے نا ۔پھر درود و سلام پڑھتے پڑھتے طبیعت (معاذ اللہ) پریشان ہوتی ہے۔پھر میرے محبوب کریم ﷺبولے، ابوبکر ؓ رب کریم نے ایک پیغام بھی بھیجا ہےیا رسول اللہ۔۔ وہ کیا۔فرمایا رب فرماتا ہے کہ ابوبکر ؓسے پوچھ کے بتائیں کہ اس حال میں وہ رب سے راضی ہے یہ ناراض ہے۔
(یہاں اقبال بولے ،خود ہی کو کر بلند اتنا کہ ہرتقدیر سے پہلے پھر خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے)
فرمایا رب پوچھتا ہے آپؓ راضی ہیں کہ ناراض ہیں تو پھرابوبکرصدیقؓ بھی کھل کے روئے کہا۔یارسول اللہ میں کل بھی اپنے رب سے بڑا ہی راضی تھا۔میں آج بھی اپنے رب سے بڑا ہی راضی ہوں۔(“یہاں لوگ لے کے بھی نہیں راضی ہوتے”)ابوبکرؓ سارا کچھ دیکھ کے بڑے ہی راضی ہیں۔ شریعت کا قاعدہ ہے کہ۔ سارا مال آپ اللہ کے راستے میں نہیں دے سکتے۔قانون شریعت ہے۔حضرت ابی بن کعب نے کہا تھا،یا رسول اللہ سارا دینا ہے۔ فرمایا نہ بھائی چوتھا حصہ دے باقی تین حصے بچوں کو دے۔حضرت ابو لبابہ نے کہا تھا۔حضور سارا مال دینا فرمایا نہ بھائی چوتھا حصہ دے تین حصے بچوں کودے۔حضرت سعد بن ابی وقاص نے کہا تھا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ایک ہی بیٹی ہے سارا اللہ کے راستے میں دیتا ہوں۔فرمایا نا تین حصے بیٹی کو۔ چوتھا حصہ دے۔تیرے بچے لوگوں کے ہاتھ دیکھے میں گوارا نہیں کرتا۔ان سے کہا کہ چوتھا حصہ دو تب قبول کروں گا۔۔۔ابوبکر صدیق ؓسے فرمایا تو سارے لے آیا تیرا سارا ہی قبول ہے۔ نبی کریم علیہ السلام فرمانے لگے مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع ہی نہیں دیا۔اتنا ابوبکر صدیقؓ کے مال نے دیا۔اور پھراگلے لفظ ایسے ہیں کہ روح وجد کرتی ہے میرے کریم محبوبﷺ فرمانے لگے جس کا بھی مال آیا میں نے بیگانہ سمجھ کے خرچ کیا ہے۔اورجب ابوبکر کا آیا ہے تو میں نے اپنا سمجھ کے خرچ کیا ہے۔مجھے پتہ ہے یہ شکوہ نہیں کرے گا یہ شکایت نہیں کرئیگا۔(“یار کچھ لوگ ہوتے ہیں ۔”جو 10 دیتے ہیں تو 20 جگہ بتاتے ہیں۔ جو کھانا کھلاتے ہیں تو ذکر کرتے ہیں۔ فرمایا ﷺاس کا مال میرا مال ہے میرا میرا اپنا ہے۔۔۔حضرت ابوبکر صدیق ؓفورا بول پڑےعرض کی حضورجب میں آپ کا ہوں تو مال بھی توآپ کا ہی ہے۔یا رسول اللہ ﷺجب میں نے اپنا آپ نہیں بچا کے رکھا ۔حضرت ملا معین الوعظ کاشمی نے لکھا ہے کہ وہ جو سانپ تھا غارثور میں وہ 600 سال سے بیٹھا ہوا تھا۔ حضرت عیسیؑ علیہ الصلوۃ والسلام ایک دن پڑھ رہے تھے انجیل۔ توآپ نے نبی پاک کا تذکرہ پڑھا وہ سانپ نے سن لیا ۔تو حضرت عیسی ؑسے کہنے لگا۔حضور یہ بتائیں کہ وہ نبی پاک ملیں گے کہاں۔حضرت عیسیؑ فرمانے لگے کہ مکے میں آئیں گے اور مدینے میں رہیں گے۔تو کہا ملاقات کیسے ہو سکتی ہے۔فرمایا چلاجا مکے تو وہ سانپ00 6 سال غار ثور میں رہا اوراس نے 70 جگہ پہ سوراخ کیے۔وہ سانپ 600 سال بیٹھا رہا 600 سال اور 70 اس نے سراخ کیےغارثور میں۔لیکن وہ بھی عاشق تھا۔اور یہاں معاملہ یہ تھا کہ ابوبکر صدیق دعا مانگ کے گئے تھے ،کہ میں نے کسی کو موقع نہیں دینا ایک میں ہوں گا دوسرا میرا یار ہوگا۔ غار ثور کی تو لذت یہ والی تھی ایک میں ایک میرے محبوب ﷺ۔۔۔اس نے 70 سوراخ کیے ہوئے تھے۔ جناب ابوبکر صدیق ؓنے کہا حضور آپ ٹھہرے میں ذرا ابھی آیا ۔صفائی کر کےتو نبی کریم علیہ السلام رکے۔ تو حضرت ابوبکر صدیق نے کہیں پگڑی پھاڑ کے رکھی ۔کہیں چادر پھاڑ کے رکھی ۔اتنے سوراخ بند کیے ۔۔تو جو ایک رہ گیا وہاں ایڑی رکھ دی۔ تو اب وہ سانپ بھی شکوہ کرنے لگا کہ ،،یار تو بھی کوئی نرالہ عاشق ہے ۔کہ میں نے تو کسر ہی کوئی نہیں چھوڑی تھی۔ 70 سوراخ کیے تھے اور تو نے بھی کمال ہی کر دی ہے۔ یہ سارے ہی بند کر دیے۔ جو بچ گیا اس پرایڑی ہی رکھ دی ۔اس نے پتہ نہیں کتنے ڈنگ مارے” سانپ کا جب ڈنگ لگتا ہے تو وجود نے بہت زیادہ گرمی پیدا ہوتی ہے”حضرت ابوبکر صدیق ؓکے بارے میں ہمارےشارحین نے لکھا،روئے نہیں ۔وجود اتنا گرم ہوا کہ آنسو ٹپک پڑے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہٹا ذرا پیر۔۔پھر انہوں نے ہٹایا تو میرے مصطفی میں لعاب دہن لگایا ۔ورنہ معین الوعظ کاشمی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے قدم ہٹایا ۔تو پھروہ سانپ باہر نکلا اپنا سر نکالا اور کھڑا ہو کے حضورﷺ کا دیدار کرنے لگا ۔نبی کریم نے فرمایا تیرا کام ہو گیا اب تو جا۔مجھے اورابوبکر کو رہنے دے نکل گیا ۔یہ کیفیات ہیں ۔یہ محبت ہے یہ وارفتگی ہے یہ سوزہے یہ درد ہے۔۔ یارو یہ چیز جینے کا بھی مزہ دیتی ہے مرنے کا بھی مزہ آتا ہےسرورآتا ہے۔انسان کواس میں جب یہ کیفیات شامل ہوتی ہیں درد اور ہوتا ہے ذائقہ اور ہوتا ہے کیفیت اور ہوتی ہے پھر کوئی شوق نہیں رہتا اعلی کپڑوں کا بڑی گاڑی کا لمبے چوڑے معاملات کا ۔پھر تو انسان ڈھونڈتا پھرتا ہے کوئی مجھے محبوب کی بات سنائے ۔کوئی اس کی شان میں کوئی شعر سنائے ۔کوئی اس کا ذکر سنائے کوئی مل جائے۔انسان ڈھونڈتا پھرتا ہے ان لوگوں کو ۔جو پکڑ کے دروازہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ تک لے جائیں ۔ابو بکرؓ نےبڑا پیار کیا میرے کریم ﷺکو۔۔ حضرت علی المرتضی شیر خدا ؓفرماتے ہیں میٹنگ بیٹھی تھی بدر والے دن ۔ہم بات کر رہے تھے خطرہ کہاں ہے۔ دلیر لوگوں کی ڈیوٹی کہاں لگائی جائے ۔شیر خدا ؓبھی چاہ رہے تھے کہ میں ہی ڈیوٹی دوں گا ۔تو کہتے ہیں سمجھ آئی کہ سب سے زیادہ خطرہ نبی کریم علیہ السلام کے خیمے کو ہوگا۔ قریش مکہ سب سے زیادہ حملے وہاں کریں گے جہاں حضور ٹھہرے ہوں گے۔۔طے ہو رہا تھا کس کی ڈیوٹی لگائیں؟کس کو وہاں ذمہ داری سونپیں۔کہتے ہیں ہم بات کر رہے تھے اور میں تیار تھا وہاں جانے کو ۔۔اچانک ابوبکر صدیقؓ آگئے کیا باتیں ہو رہی ہیں؟تو ہم نے کہا جناب ہم پروگرام بنا رہے ہیں کہ وہاں ڈیوٹی کس نے کرنی ہے ۔۔تو فرمانے لگے یہ کرنے والی بات ہی کوئی نہیں ،،میں نے تو عرض کر بھی دیا ہے نبی پاک ﷺکی بارگاہ میں ۔کہ یا رسول اللہ یہاں ڈیوٹی میں ہی کروں گا۔ تو حضرت ابو دردہ رضی اللہ تعالی عنہ عرض کرنے لگے، حضرت ابوبکر صدیق سے ۔کہ حضور آپ کے ساتھ کون ڈیوٹی کرے گا؟ فرمانے لگے کسی کی بھی ضرورت نہیں کوئی ماں نے لال جنا ہی نہیں جو ابوبکر ؓکے ہوتے ہوئے نبی پاکﷺ تک پہنچ جائے ۔۔ کسی کی جرات ہی نہیں میں اکیلا کافی ہوں۔مصطفی کریم ﷺکے خیمے کا پہرہ دینے کے لیے یہ اعزاز یہ شان یہ لطافت حضرت ابوبکر ؓ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔۔حضرت ابودردہ ؓکہتے ہیں ایک دن حضور علیہ السلام نے مجھے فرمایا ۔ابو دردہ ؓ۔یہ تو نے آج کیا کیا ۔حضورﷺ کیا ہوا؟ فرمایا آج تو گلی میں چل رہا تھا۔اور ابوبکر ؓکے آگے آگے چل رہا تھا ۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہوا ؟فرمایا،نہ کسی پہ سورج طلوع ہوا نہ غروب ہوا ۔۔جو میرے ابوبکر سے افضل ہو۔۔ خبردار اس کے آگے نہیں چلنا۔ شاہ ولی اللہ صاحب ؒنے ایک بات لکھی ہے بڑی نرالی ہے بڑی شاندار عجیب بات لکھی ہے ،،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا کہ وقفے سے ملا کرو محبت بڑھتی ہے ۔ ” قدر کھو دیتا ہے نا ہر روز کا آنا جانا ۔اور بڑی دلچسپ ہوتی ہیں بے ترتیب ملاقاتیں۔”تو کہا ﷺکہ وقفے سے ملا کرو۔ حضرت ابو ہریرہؓ بھی تھے۔اور دیگر لوگ بھی تھے ۔حضور ﷺنے فرما دیا ۔۔حضرت ابوبکر صدیق ؓبھی سن رہے تھے۔ ظہر کی نماز پڑھی گھر چلے گئے ،عصر پڑھی تو گھر چلے گئے ،مغرب پڑھی تو گھر چلے گئے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ۔تین دفعہ حضور ﷺنے پوچھا ابوبکر نہیں آئے؟ ابوبکر نہیں آئے ؟تین دفعہ پوچھا ۔۔ میں نے کہا ابوبکرؓ تین دفعہ حضور ﷺنے پوچھ لیا ہے ۔ کہ ابوبکرؓ نہیں آئے ؟ابوبکرؓ نہیں آئے؟ تو جناب صدیق اکبرؓ دوڑے حضورﷺ حکم ۔فرمایا کہاں تھے ؟صبح سے،، عرض کی ،یا رسول اللہ ﷺآپ نے تو فرمایا تھا وقفے سے ملا کرو۔ محبت بڑھتی ہے۔تومحبوبﷺ فرمانے لگے تمہیں تھوڑی کہا تھا ۔۔تو نا جایا کر یار۔ تو رہتا ہے تو دل جمع رہتا ہے۔ آپ یقین کریں ۔”کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں دل کرتا ہے کہ انہیں خرید کے پاس رکھ لے ۔ اس لیے کہ ان کا لبو لہجہ اور ہوتا ہے ۔ان کا طرز حیات اور ہوتا ہے۔ طرزغلام اور ہوتا ہے۔ طرز فرمانبرداری اور ہوتا ہے۔ انداز اور ہوتا ہے ۔فرمایا ﷺتو نہ جایا کر یہیں رہا کر۔۔اور میرے محبوبﷺ نے فرمایا ،ابوبکر ؓ تو صرف میرا غار میں ہی ساتھی نہیں۔ قیامت میں جب میں حوض کوثر تقسیم کروں گا تب بھی تو میرے پاس ہی بیٹھا ہوگا ۔قیامت کے دن حوض کوثر کی تقسیم میں بھی تو میرے ساتھ ہی ہوگا۔(” اور ایک بات اور سن لے جاتے جاتے۔کچھ لوگ ساتھ بڑا رہتے ہیں پر بات کم کم مانتے ہیں ۔کہتےمیں جھاڑو جو دیتا ہوں آستانے کی۔ مجھے وظیفہ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے ۔میں وہاں ہر وقت حاضر جو رہتا ہوں مجھے کیا ضرورت ہے شجرہ پڑھنے کی۔ مجھے کیا ضرورت ہے ان کی بات سننے کی ۔بس میں وہاں رہتا ہوں اتنا ہی کافی ہے ۔”)حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نوکری بھی کھل کے کی اور نبی پاکﷺ کی ۔بات بھی کھل کے مانی جو حضورﷺ نے کہہ دیا ۔(” یہاں تو لوگ سوچتے ہیں نا سمجھتے ہیں ۔ کہتے ہیں میرے پاس نسبت ہے وہی کافی ہے “)مجمع لگا ہے صحابہ کا۔۔نبی پاک علیہ السلام نے فرمایا ،، آج روزہ کس نے رکھا ہے؟سب چپ ہوگے حضور نے دوبارہ پوچھا ۔تو جناب صدیق اکبر ؓبولے عرض کی ۔حضورﷺ آپ حکم نہ دیتے تو میں نہ بتاتا۔ اللہ نے آج مجھے یہ توفیق عطا فرمائی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا جنازے میں کس نے شرکت کی ؟لوگ خاموش ہوگے۔تو حضور علیہ السلام نے دوبارہ پوچھا ۔عرض کی۔ حضورآپ حکم نہ دیتے تو نہ بتاتا اللہ نے یہ توفیق مجھے عطا فرمائی۔ فرمایا آج کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے ؟عرض کی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم نہ دیتے تو نہ بتاتا۔۔ اللہ نے مجھے یہ توفیق عطا فرمائی فرمایا ۔کس نے آج لوگوں کو دین کی دعوت دی اسلام کی طرف بلایا کون ہے؟عرض کی۔ حضور ﷺاگر آپ حکم نہ دیتے تو میں نہ بتاتا۔ یہ بھی خدمت اللہ نے مجھے عطا فرمائی ہے۔تو نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ابوبکرؓ تو سن قیامت کے دن ایک دروازہ جنت میں ایسا ہوگا ،جہاں سے صرف روزے دار گزرے گا ۔ ایک دروازہ ایسا ہوگا جس سے صرف نمازی گزریں گے۔ ایک دروازہ ایسا ہوگا جس سے صرف حاجی گزریں گے ۔ایک سے سخاوت کرنے والے گزریں گے۔ لیکن جب تو آئے گا نا تو جنت کے ہر دروازے سے آواز ائے گی۔کہ ادھر سے داخل ہو جائے ادھر سے ہر دروازے سے آواز ائے گی
یہ ہے ابوبکر صدیق ؓ کی زندگی
===========
ایک عالی شان بادشاہ کی بربادی
جزاک اللہ