حضرت جنید بغدادیؒ اور شیطان کے درمیان گفتگو

حضرت جنید بغدادیؒ اور شیطان کے درمیان گفتگو حضرت جنید بغدادیؒ اور شیطان کے درمیان گفتگو

حضرت جنید بغدادیؒ اور شیطان کے درمیان گفتگو

حضرت جنید بغدادیؒ، جو صوفیائے کرام کے امام اور “سید الطائفہ” کے لقب سے معروف ہیں، کی زندگی میں شیطان کے ساتھ ایک اہم اور بصیرت افروز گفتگو کا واقعہ ملتا ہے۔ یہ واقعہ نفس کے فریب، شیطانی وسوسوں اور اہل اللہ کے روحانی مقام کو سمجھنے کے لیے نہایت مفید ہے۔ اس واقعے کو مختلف کتبِ تصوف و سیر میں قدرے مختلف الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، لیکن اس کا بنیادی سبق اور خلاصہ یکساں ہے۔

واقعے کا پس منظر

روایت ہے کہ حضرت جنید بغدادیؒ اپنے معمول کے مطابق اللہ کے ذکر میں مشغول تھے۔ وہ اکثر تنہائی میں اللہ کی یاد اور مراقبے میں وقت گزارتے تھے۔ شیطان، جو انسان کو ہر لمحہ بہکانے کی تگ و دو میں رہتا ہے، ان کے مقام و مرتبے سے بخوبی واقف تھا اور انہیں گمراہ کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتا تھا۔

شیطان کا ظہور اور دعویٰ

ایک دن جب حضرت جنید بغدادیؒ اللہ کے ذکر میں مستغرق تھے، شیطان ایک بہت حسین اور شاندار لباس میں نمودار ہوا اور حضرت جنید بغدادیؒ کو مخاطب کر کے کہنے لگا:

“اے جنید! آپ نے بڑا کام کیا، آپ نے ایسی عبادت اور ریاضت کی کہ میں نے (شیطان نے) اب تک آپ کے جیسا کوئی بندہ نہیں دیکھا۔ میں نے لوگوں کو مختلف طریقوں سے بہکایا اور گمراہ کیا، مگر آپ کو کبھی گمراہ نہ کر سکا۔ آپ نے مجھے اپنی تمام کوششوں میں ناکام کر دیا، لہٰذا میں آپ کے سامنے ہتھیار ڈالتا ہوں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ سے کچھ سیکھوں اور آپ کی بیعت کروں۔”

شیطان کا مقصد حضرت جنید بغدادیؒ کو عُجب (خود پسندی) اور غرور میں مبتلا کرنا تھا، کیونکہ یہ دو ایسی روحانی بیماریاں ہیں جو بڑے سے بڑے ولی کی عبادت اور ریاضت کو ضائع کر سکتی ہیں۔ شیطان خوب جانتا تھا کہ براہِ راست گناہ کی طرف دعوت دینا ایسے اللہ والے کو بہکا نہیں سکتا، لہٰذا اس نے تعریف و توصیف کا جال بچھایا۔

حضرت جنید بغدادیؒ کا ردِ عمل اور سوال

حضرت جنید بغدادیؒ ایک عارف باللہ اور صاحبِ بصیرت بزرگ تھے۔ وہ شیطان کے فریب کو فوراً پہچان گئے۔ انہوں نے شیطان کی اس ظاہری عاجزی اور تعریف پر کوئی توجہ نہ دی اور نہ ہی اپنے آپ کو تعریف کا مستحق سمجھا۔ اس کے بجائے، انہوں نے شیطان سے ایک ایسا سوال کیا جس سے اس کی اصلیت فوراً بے نقاب ہو گئی۔

حضرت جنید بغدادیؒ نے پوچھا:

“اے مردود! تُو نے مجھے تعریف کے ذریعے دھوکہ دینا چاہا، لیکن تُو یہ بتا کہ کیا تُو نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا تھا؟”

شیطان کی خفت اور فرار

یہ سوال سنتے ہی شیطان کا رنگ فق ہو گیا، اس کا خوبصورت لباس اور ظاہری حلیہ غائب ہو گیا اور وہ اپنی اصل بھیانک شکل میں آ گیا۔ وہ غضبناک انداز میں پیچھے ہٹتے ہوئے کہنے لگا:

“جنید! کیا آپ کو ابھی تک وہی پرانی باتیں یاد ہیں؟ میرا کام تو یہ ہے کہ جس دروازے سے میں کسی کو اللہ سے دور نہ کر سکوں، میں اس کے لیے کوئی اور دروازہ تلاش کرتا ہوں اور اسے گمراہ کرتا ہوں۔ میں نے آدم کو سجدہ نہیں کیا تھا اور قیامت تک میں اس کا اقرار نہیں کروں گا۔”

یہ کہتے ہی وہ وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔

واقعے کا سبق اور حکمت

یہ واقعہ ایک مومن، بالخصوص سالکینِ راہِ سلوک، کے لیے نہایت اہم اسباق کا حامل ہے:

 شیطان کا فریب: شیطان کبھی بھی سیدھے گناہ کی دعوت نہیں دیتا، بلکہ وہ انسان کی نفسانی خواہشات اور کمزوریوں کو جانچ کر ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اہل اللہ کو وہ تعریف و توصیف، غرور، ریاکاری اور عُجب میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

 اہل اللہ کی بصیرت: اللہ والے اپنے روحانی کمالات کی وجہ سے شیطان کے فریب کو فوراً پہچان لیتے ہیں۔ ان کے دل اللہ کے نور سے منور ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے باطل ان پر اثر انداز نہیں ہو پاتا۔

 عُجب اور غرور سے بچاؤ: یہ واقعہ اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ انسان کو اپنی عبادت، تقویٰ اور نیکی پر کبھی بھی فخر نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ عُجب اور غرور کی وجہ سے ضائع ہو سکتی ہیں۔ ہر عمل کی قبولیت کا دارومدار اللہ کی رضا پر ہے، اور انسان کو ہمیشہ اپنی کمی اور کوتاہی کا احساس رہنا چاہیے۔

 تکبر کا انجام: شیطان کے انکارِ سجدہ کا واقعہ اس کے تکبر کا نتیجہ تھا اور اسی تکبر کی وجہ سے وہ راندۂ درگاہ ہوا۔ حضرت جنید کا سوال شیطان کو اس کے سب سے بڑے گناہ کی یاد دلاتا ہے اور اس کے فریب کو توڑ دیتا ہے۔

 اللہ کی پناہ: یہ واقعہ یاد دلاتا ہے کہ انسان کو ہر لمحہ شیطان کے وسوسوں سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ اہل اللہ بھی شیطان کے حملوں سے محفوظ نہیں رہتے، لیکن ان کا ایمان اور اللہ پر توکل انہیں شیطانی چالوں سے بچا لیتا ہے۔

یہ واقعہ نہ صرف حضرت جنید بغدادیؒ کے روحانی مقام کی بلندی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ہمیں یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ ہمیں اپنی نیکیوں پر کبھی فخر نہیں کرنا چاہیے اور ہمیشہ اللہ کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے رہنا چاہیے۔


سچائی کیا ہے؟

سورة فاطر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *