حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ

حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ

حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ

حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ

حضرت سلیمان علیہ الصلاۃ والسلام اللہ تعالی کے نبی تھے، حضرت سلیمان علیہ

 الصلاۃ والسلام کے والد حضرت داؤد علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام بھی اللہ تعالی کے نبی تھے، اللہ تعالی نے دونوں کو نبی بنایا اور بہت بڑی بادشاہت بھی عطا فرمایا۔۔ حضرت سلیمان علیہ  الصلاۃ والسلام پر تو اللہ تعالی کا اتنا بڑا فضل و کرم تھا کہ جانوروں کی زبانیں بھی سمجھ لیے تھے، اللہ تعالی نے جنوں اور ہوا کو بھی حضرت سلیمان علیہ الصلاۃ والسلام کہ بس میں کر دیا تھا۔۔ حضرت سلیمان علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام جب چھوٹی عمر کے تھے تو اپ علیہ الصلاۃ والسلام کی والدہ اپ کو بڑی اچھی اچھی نصیحتیں کیا کرتی تھی نماز پڑھنے کی بڑی تاکید کرتی تھی۔۔

 نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 

حضرت سلیمان علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام کی والدہ نے ان کو نصیحت کی تھی کہ بیٹا رات بھر نہ سوتے رہا کرو رات کا زیادہ حصہ نیند میں گزار دینا انسان کو قیامت کے دن اچھے کاموں سے محتاج بنا دیتا ہے، حضرت سلیمان علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام ساری نصیحتوں کو توجہ سے سنتے اور جو کچھ سکھایا جاتا اس پر وہ عمل کرتے۔۔

 اللہ تعالی نے ان کو سمجھ بھی بڑی اچھی عطا فرمائی تھی ان کے بچپن کی دو باتیں بیان کی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچپن میں کتنے سمجھدار تھے۔۔۔ 

پہلی بات 

اللہ کے رسول حضرت داؤد علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام کو اللہ تعالی نے آسمانی کتاب (زبور) عطا فرمایا تھا۔۔ ایک مرتبہ ان کی عدالت میں ایک مقدمہ پیش ہو رہا تھا حضرت سلیمان علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام بھی وہاں موجود تھے، اس وقت اپ کی عمر صرف گیارہ برس کی تھی۔۔

 مقدمہ یہ تھا کہ ایک شخص کا دوسرے شخص پر یہ دعوی تھا کہ اس کی بکریوں نے میرا سارا کھیت چر لیا اور روند کر اسے تہس نہس کر ڈالا، کھیت والا کا جتنا نقصان ہوا تھا وہ قریب قریب اتنا تھا جتنے کے وہ بکریاں تھی، حضرت داؤد علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام نے فیصلہ دیا کہ یہ بکریاں کھیت والے کو اس کے کھیت کے نقصان کے بدلے دے دی جائے۔۔

 حضرت سلیمان علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام مقدمہ دیکھ رہے تھے فیصلہ سن کر بولے’’ ابا جان کا فیصلہ تو بالکل ٹھیک ہے کھیت والے کا جو نقصان ہوا وہ اسے ضرور ملنا چاہئے لیکن میری ایک چھوٹی سی رائے ہے۔۔۔ حضرت داؤد علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام نے جواب دیا، بتاؤ تو’’ انہوں نے کہا بکریاں کا گلہ کھیت والے کو دے دیا جائے، اور ان کا دودھ پئے اور ان سے فائدہ اٹھاتا رہے اور بکریوں کے مالک سے کہا جائے کہ وہ اس کے کھیت کو پھر سے جوتے بوئے پھر جب فصل تیار ہو جائے تو کھیت والے کو فصل کے ساتھ کھیت  دے دے اور اپنی بکریاں واپس لے لے۔۔

 دوسری بات 

ایک اور مقدمہ کا فیصلہ اس سے زیادہ سمجھداری سے کیا۔۔ یہ مقدمہ بڑا دلچسپ بھی ہے۔۔ ہوا یہ کہ دو عورتیں سفر کر رہی تھی دونوں کی گود میں ایک ایک بچہ تھا، دونوں ایک جگہ رات کو ٹھہرے بڑی عمر کی عورت کا لڑکا بھیڑیا لے گیا۔۔ صبح ہوئی تو اس نے چھوٹی عمر کی عورت کا بچہ چھین لیا اور کہا کہ یہ بچہ میرا ہے دونوں اس بچے کے لیے جھگڑنے لگی۔۔۔

 مقدمہ حضرت داؤد علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام کی عدالت میں پیش کیا گیا وہاں بڑی عمر کی عورت نے ایسی چالاکی سے بات کہی کہ حضرت داؤد علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام نے بچہ اسی کو دلا دیا، چھوٹی عمر کی عورت روتی چلاتی عدالت سے نکلی۔۔ راستے میں حضرت سلیمان علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام ملے۔ حال پوچھا تو قصہ معلوم ہوا، حضرت سلیمان علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام نے دونوں عورتوں کو بلایا اور بچہ کو لیا اور حکم دیا کہ بچہ کو ادھا ادھا کاٹ کر ایک ایک حصہ دونوں کو دے دیا جائے۔۔ یہ حکم سن سنا تو چھوٹی عمر والی عورت اور زیادہ رونے لگی بولی حضور بچہ کو نہ کاٹئے اس کے پاس رہنے دیجیئے میرا بچہ میرے پاس نہ رہے سہی وہ زندہ تو رہے گا کاٹنے سے مر جائے گا۔۔۔ حضرت سلیمان علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام یہ سنا تو کہا یہ بچہ چھوٹی عمر والی عورت کا ہے پھر جا کر حضرت داؤد علی نبی علیہ الصلاۃ والسلام سے پوری بات بتائی معاملہ حضرت داؤد علیہ الصلاۃ والسلام کی سمجھ میں اگیا انہوں نے بڑی عمر والی عورت کو سزا دی  اس طرح چھوٹی عمر والی عورت کا بچہ اسے مل گیا۔۔۔ 

ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ==================

 لالچی کا انجام

———

The peacock danced

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *