حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ
اسلام سے پہلے کی زندگی
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ، جو فاروق اعظم کے نام سے مشہور ہیں، اسلام سے پہلے مکہ کے ایک بااثر اور طاقتور شخص تھے۔ آپ قریش کے بنو عدی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، جو مکہ کے معزز قبیلوں میں شمار ہوتا تھا۔
ابتدائی زندگی اور خصوصیات
جسمانی ساخت: آپ کا قد لمبا، جسم مضبوط اور پٹھوں والا تھا۔ آپ اپنی جسمانی طاقت کے لیے مشہور تھے۔
مزاج: اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ کا مزاج بہت سخت تھا اور آپ غصے والے سمجھے جاتے تھے۔ آپ ہر معاملے میں اپنی بات منوانے کے عادی تھے۔
پیشہ: آپ عربوں کے روایتی پیشے تجارت سے وابستہ تھے اور اس میں کافی کامیاب بھی تھے۔ آپ کے تجارتی سفر شام اور دیگر علاقوں تک پھیلے ہوئے تھے۔
معاشرتی حیثیت: آپ کو مکہ میں ایک دانشور اور معاملہ فہم شخص سمجھا جاتا تھا۔ آپ قریش کے سفیر کے طور پر بھی کام کرتے تھے اور مختلف قبائل کے درمیان تنازعات کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ آپ شاعری اور نسب شناسی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔
اسلام سے دشمنی: آغاز میں آپ اسلام اور مسلمانوں کے شدید دشمن تھے۔ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو ایذا پہنچانے میں پیش پیش رہتے تھے۔ کئی واقعات ایسے ہیں جہاں آپ نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ: اسلام کے بعد کی زندگی
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا اسلام قبول کرنا ایک معجزاتی واقعہ تھا۔ ایک دن آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلے تھے، لیکن راستے میں معلوم ہوا کہ آپ کی بہن فاطمہ بنت خطاب اور بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہما اسلام قبول کر چکے ہیں۔ آپ اپنی بہن کے گھر گئے اور وہاں قرآن کی چند آیات سن کر آپ کے دل کی دنیا بدل گئی۔ آپ نے فوراً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔
اسلام قبول کرنے کے بعد اہم تبدیلیاں اور کارنامے
اسلام کی مضبوطی: حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کو بڑی تقویت ملی۔ آپ کے اسلام لانے کے بعد ہی مسلمانوں نے پہلی بار کعبہ میں اعلانیہ نماز ادا کی۔ اس سے پہلے وہ چھپ کر عبادت کرتے تھے۔
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دست راست: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں آپ نے ان کا بھرپور ساتھ دیا، خاص طور پر مرتدین کی جنگوں اور زکوٰۃ کے منکرین کے خلاف کارروائیوں میں۔
امیر المومنین اور دوسرے خلیفہ راشد: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی وفات سے پہلے آپ کو اپنا جانشین نامزد کیا۔ آپ کا دور خلافت (634ء تا 644ء) اسلامی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔
خلافت کے دوران اہم کارنامے
وسیع فتوحات: آپ کے دور میں اسلامی سلطنت تیزی سے پھیلی۔ شام، مصر، عراق اور فارس کے بڑے حصے فتح ہوئے۔ بیت المقدس کی فتح ایک تاریخی واقعہ تھا، جہاں آپ نے خود جا کر شہر کی چابیاں حاصل کیں۔
* نظام حکومت کی بنیاد: آپ نے ایک منظم حکومتی ڈھانچہ قائم کیا۔
محکمہ جات کا قیام: بیت المال (خزانہ)، عدالتی نظام، فوجی چھاؤنیاں (امصار جیسے کوفہ، بصرہ) ، اور نہروں کا نظام قائم کیا۔
امیر المومنین کا لقب: سب سے پہلے آپ ہی کے لیے یہ لقب استعمال کیا گیا۔
عسکری اصلاحات: باقاعدہ فوج کو منظم کیا، فوجی چھاؤنیاں قائم کیں اور فوجیوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔
فلاحی کام: نہریں کھدوائیں، شہر آباد کیے اور عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے۔
تقویم کا آغاز: ہجری کیلنڈر کا آغاز آپ کے دور میں ہوا۔
عدل و انصاف: آپ کا عدل و انصاف ضرب المثل ہے۔ آپ حکمران اور رعایا کے لیے یکساں قانون نافذ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اپنے بیٹے کو بھی قصاص میں کوڑے مارے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا۔
سادگی اور تواضع: خلیفہ ہونے کے باوجود آپ انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ راتوں کو گشت کر کے لوگوں کے احوال معلوم کرتے اور ان کی مدد کرتے تھے۔
شہادت
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو 23 ہجری میں ایک فارسی غلام فیروز ابو لؤلؤ نے نماز کی امامت کے دوران خنجر مار کر شہید کر دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی اسلام سے پہلے کی سختی اور اسلام کے بعد کی عدل، تقویٰ، فتوحات اور انتظامی صلاحیتوں کا حسین امتزاج ہے۔ آپ کی سیرت امت مسلمہ کے لیے ایک عظیم نمونہ ہے۔