حق کے اندھے اور بہرے لوگ

 حق کے اندھے اور بہرے لوگ  حق کے اندھے اور بہرے لوگ

 حق کے اندھے اور بہرے لوگ

اسلامی نقطۂ نظر سے ایک فکری جائزہ

دنیا میں ہر سچے انسان کو کبھی نہ کبھی اس تجربے سے ضرور گزرنا پڑتا ہے کہ وہ دردِ دل سے لبریز بات کہتا ہے، مگر سننے والا اسے سنتا نہیں؛ وہ سچائی دکھاتا ہے، مگر دیکھنے والا آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ یہی کیفیت دو خوبصورت اشعار میں بیان کی گئی ہے

بہروں کی انجمن میں نہ گا درد کی غزل

اندھوں کو مت دکھا آئینہ، گریباں پھٹا ہوا

یہ اشعار دراصل اسلامی معاشرے کے ایک بہت اہم پہلو کو اجاگر کرتے ہیں: ہدایت کا دروازہ تبھی کھلتا ہے جب دل، آنکھیں اور کان ایمان کے نور سے روشن ہوں۔ اس تحریر میں ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ سچ بولنے والے کو کن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، کیوں بعض لوگ حق کو نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں، اور ایسے وقت میں سچ بولنے والے کی ذمہ داری کیا بنتی ہے؟

قرآنِ مجید کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بارہا فرماتا ہے کہ بعض لوگ حق کو سننے کے باوجود انکار کرتے ہیں، کیونکہ ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے گئے ہیں:

“صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ”

(البقرہ: 18)

“وہ بہرے، گونگے، اندھے ہیں، اس لیے وہ رجوع نہیں کرتے۔”

یہ آیت ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے ہدایت کو جان بوجھ کر ٹھکرا دیا۔ وہ نہ سنتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے “دل کے اندھے” کہا ہے:

“فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ”

(الحج: 46)

“پس آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔”

یہاں واضح ہو گیا کہ اصل اندھا وہ نہیں جو ظاہری بینائی سے محروم ہے، بلکہ وہ ہے جس کا دل سچائی دیکھنے سے محروم ہو گیا ہو۔

نبی اکرم ﷺ کا تجربہ

نبی اکرم ﷺ نے مکہ کے مشرکین کو برسوں تک دعوتِ حق دی۔ آپ نے نہایت نرم، حکیمانہ اور مؤثر انداز میں انہیں اللہ کی طرف بلایا، مگر ان میں سے اکثر نے انکار کیا۔ قرآن کہتا ہے

“وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ…”

(فصلت: 5)

“اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل ان چیزوں کے مقابلے میں پردوں میں ہیں جن کی طرف آپ ہمیں بلاتے ہیں…”

یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے “اندھوں اور بہروں” جیسا رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے نہ رسول ﷺ کی بات سنی، نہ ان کے کردار کو دیکھا، اور نہ اپنے اندر جھانکنے کی کوشش کی۔

 حق کے اندھے اور بہرے لوگ
حق کے اندھے اور بہرے لوگ

سچائی کے انکار کی وجوہات

اسلامی تعلیمات کے مطابق، سچائی کو نہ سننے یا نہ دیکھنے کے چند اسباب ہوتے ہیں:

تکبر اور انا: فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کو صرف اس لیے نہیں مانا کیونکہ وہ اقتدار اور غرور میں مبتلا تھا۔

دنیا کی محبت: قرآن کہتا ہے کہ بعض لوگ دنیا کی چمک دمک میں ایسے کھو جاتے ہیں کہ آخرت کی حقیقت کو جھٹلا دیتے ہیں۔

نفس پرستی: انسان جب اپنے نفس کی پیروی کرتا ہے تو وہ حق کے خلاف ہو جاتا ہے۔

داعی کی ذمہ داری

اسلامی نقطۂ نظر سے، اگرچہ مخاطب اندھا یا بہرا ہو، مگر سچ بولنے والا (داعی) اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوتا۔ قرآن میں فرمایا گیا:

“فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ، لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ”

(الغاشیہ: 21-22)

پس نصیحت کرتے رہیے، آپ تو صرف نصیحت کرنے والے ہیں، آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہیں۔

یعنی سچ کہنا فرض ہے، مگر یہ توقع نہ رکھی جائے کہ ہر کوئی اسے قبول بھی کرے گا۔

حکمت اور بصیرت کے ساتھ دعوت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

“ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ”

(النحل: 125)

اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ

یعنی اگر آپ کو معلوم ہو جائے کہ سامنے والا بہرہ ہے، تو چیخنے کی بجائے، حکمت سے خاموش ہو جانا بہتر ہوتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے شعر میں یوں بیان کیا گیا:

بہروں کی انجمن میں نہ گا درد کی غـزل

کہ بہرے آپ کی آواز کو صرف شور سمجھیں گے، درد نہیں

حکمت عملی: سچ کو چھپانا نہیں، موقع دیکھنا

اسلام میں حق کو چھپانے کی اجازت نہیں، مگر حکمت سے وقت اور جگہ کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ نبی ﷺ نے بھی ہر وقت ایک ہی انداز سے بات نہیں کی، بلکہ حالات اور سامعین کے مزاج کے مطابق طریقہ اختیار کیا۔

اگر کوئی اندھا ہے (یعنی حقیقت سے غافل ہے)، تو فوراً آئینہ دکھانے کے بجائے اسے پہلے روشنی دکھائی جائے، کیونکہ:

اندھوں کو مت دکھا آئینہ، گریباں پھٹا ہوا

کیونکہ وہ نہ آئینہ دیکھ سکتے ہیں، نہ سمجھ سکتے ہیں کہ گریباں کیوں پھٹا ہوا ہے

سچ بولنے والوں کے دل کی کیفیت

ایک داعی، ایک مصلح، ایک سچ بولنے والا اکثر دل شکستہ ہوتا ہے کہ لوگ کیوں نہیں سنتے؟ کیوں حق کا مذاق اُڑایا جاتا ہے؟ مگر اللہ تعالیٰ ان کو تسلی دیتا ہے:

وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ فَصَبَرُوا

(الأنعام: 34)

یقیناً آپ سے پہلے بھی رسولوں کو جھٹلایا گیا، پس انہوں نے صبر کیا

نتیجہ

یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے، اور سچ بولنے والے ہمیشہ آزمائش میں رہتے ہیں۔ سچائی کہنا کبھی بھی سب کے لیے قابلِ قبول نہیں رہا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی کے نہ ماننے سے سچائی جھوٹ نہیں بن جاتی۔ اس لیے:

سچ ضرور کہیں، مگر حکمت سے

دل شکستہ نہ ہوں، صبر کریں

نتائج اللہ پر چھوڑ دیں

آخری پیغام

اگر لوگ آپ کے درد کو نہ سمجھیں، تو گلہ نہ کریں۔ آپ کا کام درد سنانا نہیں، دوا بتانا ہے۔ اور اگر سننے والا نہ ہو، تو خاموشی اختیار کریں، کیونکہ کبھی کبھی خاموشی بھی سب سے بڑی دعوت بن جاتی ہے۔

اندھوں کو مت دکھا آئینہ، گریباں پھٹا ہوا

کیونکہ وہ آئینے میں آپ کا درد نہیں، صرف دھند دیکھیں گے


پرہیز گاروں کا مقام

سورة العاديات

One thought on “ حق کے اندھے اور بہرے لوگ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *