حلال کیا ہے حرام کیا ہے؟

حلال کیا ہے حرام کیا ہے؟ حلال کیا ہے حرام کیا ہے؟

حلال کیا ہے حرام کیا ہے؟

حمد و ثنا اس ذات کے لیے جو تمام جہانوں کا رب ہے، جس نے ہمارے لیے زندگی گزارنے کا بہترین ضابطہ اتارا، جس نے ہمارے نفع و نقصان کا علم ہمیں بخشا، جس نے حلال کو ہمارے لیے پاکیزہ اور باعث برکت بنایا اور حرام کو ہمارے لیے ناپاک اور نقصان دہ قرار دیا۔ درود و سلام ہو سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر، جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا، جنہوں نے اپنے قول و فعل سے حلال و حرام کی حدود کو واضح فرما دیا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے مشعل راہ بن گئے۔

آج جس موضوع پر ہم گفتگو کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، یا جسے ہم اپنے بلاگ کے ذریعے قارئین تک پہنچانا چاہتے ہیں، وہ ہماری زندگی کا ایک انتہائی بنیادی اور حساس پہلو ہے۔ یہ ہے ‘حلال اور حرام’ کا تصور۔ یہ محض چند فقہی مسائل کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ ہماری پوری زندگی، ہماری سوچ، ہمارے اعمال، ہماری کمائی، ہمارے تعلقات، اور یہاں تک کہ ہماری دعاؤں کی قبولیت سے بھی گہرا تعلق رکھتا ہے۔ یہ موضوع اتنا اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں بار بار اس کا ذکر فرمایا اور نبی اکرم ﷺ نے اپنی سنت مبارکہ کے ذریعے اس کی تفصیلات بیان فرمائیں۔

ہم مسلمان ہونے کے ناطے اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا راستہ ان حدود کی پاسداری میں ہے جو اس نے ہمارے لیے مقرر کی ہیں۔ ان حدود میں سب سے نمایاں حلال اور حرام کا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کے لیے زمین کی تمام پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یَا أَیُّهَا النَّاسُ کُلُوا مِمَّا فِی الْأَرْضِ حَلَالًا طَیِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِینٌ

(سورۃ البقرۃ، آیت 168)

“اے لوگو! جو چیزیں زمین میں حلال اور پاکیزہ ہیں، انہیں کھاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔”

یہ آیت مبارکہ واضح طور پر بتاتی ہے کہ زمین میں بہت سی چیزیں ہمارے لیے حلال اور پاکیزہ بنائی گئی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے شیطان کے راستوں پر چلنے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ شیطان کا بنیادی کام ہی انسان کو اللہ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنے پر اکسانا ہے۔

حلال وہ ہے جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جائز قرار دیا ہے۔ یہ پاک ہے، خیر و برکت کا باعث ہے اور انسانی فطرت کے مطابق ہے۔ اس کے برعکس، حرام وہ ہے جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ممنوع قرار دیا ہے۔ یہ ناپاک ہے، شر اور نقصان کا باعث ہے، اور انسانی فطرت کے لیے نقصان دہ ہے۔

حلال و حرام کا یہ تصور صرف کھانے پینے تک محدود نہیں ہے۔ یہ زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔ ہماری کمائی حلال ہونی چاہیے۔ ہمارا بول چال حلال ہونا چاہیے۔ ہمارے تعلقات حلال ہونے چاہییں۔ ہمارا لباس حلال ہونا چاہیے۔ ہمارا وقت کا استعمال حلال ہونا چاہیے۔ غرضیکہ، ہماری نیت سے لے کر ہمارے عمل کے انجام تک، ہر چیز کو شریعت کی میزان پر پورا اترنا چاہیے۔

نبی کریم ﷺ نے ایک جامع حدیث میں اس فرق کو بہت خوبصورتی سے واضح فرما دیا ہے۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ پس جو مشتبہ چیزوں سے بچا، اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔ اور جو مشتبہ چیزوں میں پڑا، وہ حرام میں پڑ گیا، اس چرواہے کی طرح جو اپنی بکریوں کو ممنوعہ چراگاہ کے قریب چراتا ہے، قریب ہے کہ وہ اس میں داخل ہو جائے۔ خبردار! ہر بادشاہ کی ایک ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے۔ اور اللہ کی ممنوعہ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔”

(صحیح بخاری، کتاب الإیمان؛ صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ)

یہ حدیث ہمارے لیے ایک رہنما اصول ہے۔ حلال بالکل واضح ہے، جیسے پانی کا پینا یا جائز تجارت کرنا۔ حرام بھی واضح ہے، جیسے شراب پینا، سور کا گوشت کھانا، چوری کرنا، جھوٹ بولنا۔ لیکن ان کے درمیان کچھ ایسے معاملات ہوتے ہیں جن کے حلال یا حرام ہونے میں شک ہوتا ہے۔ یہ مشتبہ امور ہیں۔ دانشمند شخص وہ ہے جو اپنے دین اور عزت کی حفاظت کے لیے ان مشتبہ امور سے بھی بچتا ہے۔ کیونکہ جو ان مشتبہ چیزوں میں پڑتا ہے، اس کے لیے حرام میں جا گرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

حلال کمائی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ یہ ہماری دعاؤں کی قبولیت پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک طویل حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے، پراگندہ حال ہے، آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر یا رب! یا رب! پکارتا ہے، لیکن اس کا کھانا حرام کا ہے، اس کا پینا حرام کا ہے، اس کا لباس حرام کا ہے، اور اس کی پرورش حرام سے ہوئی ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“فَأَنَّیٰ یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ؟”

(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ)

“تو اس کی دعا کیسے قبول ہو گی؟”

یہ حدیث لرزہ خیز ہے۔ ایک شخص تمام ظاہری اسباب اختیار کر رہا ہے جو دعا کی قبولیت کے لیے ہیں (سفر، عاجزی، رب کو پکارنا)، لیکن صرف حرام کی کمائی اور استعمال کی وجہ سے اس کی دعا قبول نہیں ہو رہی۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حلال کی کمائی اور حلال چیزوں کا استعمال ہمارے روحانی تعلق اور اللہ کی رحمت کے حصول کے لیے کتنا ضروری ہے۔

حرام صرف وہ نہیں جو نظر آئے (جیسے حرام گوشت یا شراب)۔ حرام وہ بھی ہے جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو لیکن شرعی لحاظ سے ممنوع ہو۔ جیسے سود، رشوت، دھوکہ دہی، ناپ تول میں کمی، یتیم کا مال کھانا، غیبت کرنا، چغلی کھانا، جھوٹی گواہی دینا۔ یہ سب حرام کے زمرے میں آتے ہیں اور ہماری زندگیوں سے برکت چھین لیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سود کی حرمت کو انتہائی سخت الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ ﴿278﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿279﴾

(سورۃ البقرۃ، آیات 278-279)

“اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر تم واقعی مومن ہو۔ پس اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اور اگر تم توبہ کر لیتے ہو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔”

یہاں سود کو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ قرار دیا گیا ہے! اس سے سود کی حرمت اور اس کے سنگین نتائج کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح غیبت کو مردار بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا یَغْتَب بَّعْضُکُم بَعْضًا ۚ أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَن یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیهِ مَیْتًا فَکَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِیمٌ

(سورۃ الحجرات، آیت 12)

“اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔ اور (ایک دوسرے کے عیبوں کی) ٹوہ میں نہ رہو اور نہ تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ سو اسے تو تم ناپسند کرتے ہو گے۔ اور اللہ سے ڈرو۔ بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔”

یہ آیات اور احادیث واضح طور پر بتاتی ہیں کہ حلال و حرام کا دائرہ کتنا وسیع ہے اور اس کی پاسداری ہمارے دین کا کتنا لازمی جز ہے۔

حرام سے بچنا صرف آخرت کی کامیابی کے لیے ہی ضروری نہیں، بلکہ اس کے دنیاوی فوائد بھی ہیں۔ حلال کمائی میں برکت ہوتی ہے۔ حلال زندگی میں سکون ہوتا ہے۔ حرام کے مال سے پلنے والی نسلیں عموماً دین سے دور اور نافرمان ہوتی ہیں۔ جبکہ حلال رزق کا اثر انسان کے دل پر پڑتا ہے اور اسے نیکی کی طرف مائل کرتا ہے۔

آج کا دور فتنوں کا دور ہے۔ حلال و حرام میں تمیز کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ کمانے کے حلال ذرائع محدود نظر آتے ہیں اور حرام کے راستے پرکشش۔ لیکن یہی تو ہمارے ایمان کا امتحان ہے۔ کیا ہم اللہ کی رضا کے لیے دنیاوی فائدے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم حلال کی قلیل آمدنی پر صبر کر سکتے ہیں بجائے اس کے کہ حرام کی کثیر دولت جمع کریں؟

ہمیں خود احتسابی کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے معاملات کا جائزہ لینا چاہیے۔ ہماری کمائی کہاں سے آ رہی ہے؟ کیا وہ حلال ہے؟ کیا ہم اپنے اہل و عیال کو حلال رزق کھلا رہے ہیں؟ ہماری بول چال کیسی ہے؟ کیا ہم غیبت، چغلی، جھوٹ اور بہتان سے بچتے ہیں؟ ہمارے تعلقات کیسے ہیں؟ کیا وہ اسلامی حدود کے اندر ہیں؟

حلال و حرام کی پاسداری کوئی بوجھ نہیں، بلکہ یہ اللہ کی رحمت اور ہمارے لیے خیر کا سامان ہے۔ یہ ہمیں گناہوں سے بچاتی ہے، ہماری زندگیوں کو پاکیزہ بناتی ہے، اور ہمیں اللہ کے قریب کرتی ہے۔

بطور مسلمان، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حلال کو اپنائیں اور حرام سے بچیں۔ ہمیں اس بارے میں علم حاصل کرنا چاہیے۔ ہمیں مستند ذرائع سے پوچھنا چاہیے۔ ہمیں اپنے بچوں کو حلال و حرام کی تمیز سکھانی چاہیے۔ ہمیں اپنے معاشرے میں حلال کے فروغ اور حرام کی حوصلہ شکنی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی تمام زندگی حلال کے دائرے میں گزار سکیں۔ ہماری کمائی حلال ہو، ہمارا کھانا پینا حلال ہو، ہمارا بول چال حلال ہو، ہمارے اعمال حلال ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حرام کے قریب جانے سے بھی محفوظ رکھے۔ وہ ہمارے لیے حلال کے راستے آسان فرمائے اور حرام کے راستوں کو ہمارے لیے مشکل بنا دے۔

یاد رکھیں، دنیا کی چند روزہ زندگی عیش و عشرت میں گزارنے کے لیے آخرت کی ابدی نعمتوں کو خطرے میں ڈالنا کوئی دانشمندی نہیں۔ حلال کی قلیل آمدنی میں اللہ کی برکت شامل ہو تو وہ حرام کی کثیر دولت سے کہیں زیادہ سکون اور خیر کا باعث بنتی ہے۔

دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں مکمل طور پر حلال کا پابند بننے کی توفیق عطا فرمائے اور حرام سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔


ظلم کا انجام

سورة مريم

2 thoughts on “حلال کیا ہے حرام کیا ہے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *