دس سال کی خدمت سزاے موت
کبھی کہیں، ایک بھولی بسری قوم کا آخری بادشاہ تھا۔
اس بادشاہ کے پاس دس خونخوار کتے تھے — درندہ صفت، خوں آشام، جنہیں خاص طور پر تربیت دی گئی تھی کہ وہ ہر اُس شخص کو چیر پھاڑ ڈالیں جو بادشاہ کی ناپسندیدگی کا شکار ہو جائے۔ یہ اس بادشاہ کا آخری اور بدترین ہتھیار تھا۔ کوئی غلطی کرے، تو اس کی سزا صرف ایک: ان درندہ کتوں کے آگے ڈال دیا جائے۔
ایسے ہی ایک دن، بادشاہ کا سب سے وفادار خادم، جس نے دس برس تک دن رات ایک کر کے خدمت کی تھی، ایک معمولی سی غلطی کر بیٹھا۔ بادشاہ غضبناک ہو گیا۔ ماتھے پر تیوریاں، آنکھوں میں دہکتے انگارے۔ بغیر لمحہ ضائع کیے حکم صادر فرما دیا: “اسے کتوں کے آگے ڈال دو۔”
خادم نے ادب سے گردن جھکا کر عرض کیا
“حضور، میں نے دس برس آپ کی خدمت میں گزارے ہیں، وفاداری میں ایک لمحے کو بھی کمی نہیں آنے دی۔ صرف دس دن کی مہلت دیجیے… پھر آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر۔”

بادشاہ نے لمحہ بھر کو سوچا، پھر غرور سے گردن ہلا دی: “ٹھیک ہے۔ دس دن بعد انجام پاؤ گے۔”
ان دس دنوں میں، وہ خادم سیدھا گیا اُن کتوں کے رکھوالے کے پاس۔ اُس نے عاجزی سے گزارش کی کہ اُسے ان کتوں کی دیکھ بھال کا کام دیا جائے۔ رکھوالے کو حیرت تو ہوئی، مگر اجازت دے دی۔
اور پھر… وہ خادم ان درندوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنے لگا، جیسے وہ اس کے اپنے بچے ہوں۔ ان کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتا، ان کے پنجے دھوتا، ان کے زخموں پر مرہم رکھتا، ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتا، محبت سے ان کی آنکھوں میں جھانکتا… اور وہ کتے؟ وہ رفتہ رفتہ بدلنے لگے۔ ان کی آنکھوں میں اجنبیت کی جگہ انسیت، اور غرّانے کی جگہ نرم دُم ہلانے لگی۔
دس دن گزر گئے۔
بادشاہ نے اپنے حکم پر عملدرآمد کا حکم دیا۔ خادم کو کتے کے پنجرے میں پھینک دیا گیا۔ دربار میں سنّاٹا چھا گیا۔ سب نے آنکھیں بند کر لیں — کسی کو اس خونی منظر کا سامنا کرنے کی ہمت نہ تھی۔
مگر کچھ پل گزرے… اور کوئی چیخ نہ سنائی دی۔
آنکھیں کھول کر دیکھا گیا تو منظر حیران کُن تھا۔
کتے خادم پر جھپٹنے کے بجائے اُس کے اردگرد بیٹھے تھے۔ دُم ہلا رہے تھے، اس کے پاؤں چاٹ رہے تھے، اس کی گود میں سر رکھے لیٹے تھے — جیسے وہ اُن کا سب سے پیارا ساتھی ہو۔
بادشاہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
غصے اور حیرت کے ملے جلے لہجے میں وہ دھاڑا
“یہ میرے کتے ہیں یا کسی فقیر کے پالے ہوئے جانور؟ انہیں کیا ہوگیا ہے؟”
خادم نے سکون سے نظریں اٹھائیں۔
“جہاں پناہ، میں نے انہیں صرف دس دن دیے… اور انہوں نے یاد رکھا۔ آپ کو دس سال دیے… اور آپ نے میری پہلی خطا پر سب کچھ فراموش کر دیا۔”
بادشاہ چند لمحے خاموش رہا۔
پھر اس نے نظریں جھکائیں۔
اور اگلے ہی لمحے حکم دیا
“اس خادم کو رہا کر دیا جائے۔”
یہ کہانی اُن سب کے لیے ہے
جو دوسروں کی عمر بھر کی نیکی، محبت اور وفاداری کو…
ایک غلطی پر بھلا بیٹھتے ہیں۔
زندگی میں اگر کوئی لغزش کرے، تو یاد رکھیں —
وفا کو تولنے کا پیمانہ صرف ایک لمحہ نہیں ہونا چاہیے۔
کہانی کے اسباق
وفاداری اور خدمت کو کبھی نہ بھولو
جو لوگ برسوں آپ کے ساتھ وفاداری اور خدمت کرتے رہیں، ان کی محنت اور نیکی کو ایک معمولی غلطی پر فراموش نہ کرو۔
محبت اور شفقت سخت دلوں کو بھی بدل دیتی ہے
خادم نے درندہ کتوں کے ساتھ محبت کی، نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خونخوار جانور بھی نرم دل ہوگئے۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ نرمی اور محبت ہر دل کو جیت سکتی ہے۔
غصے اور جلد بازی سے فیصلے نقصان دہ ہوتے ہیں
بادشاہ نے غصے میں سزا کا حکم دے دیا، لیکن بعد میں اپنی غلطی پر شرمندہ ہوا۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ فیصلے ہمیشہ سوچ سمجھ کر کرنے چاہئیں۔
ایک لمحے کی خطا پر پوری زندگی کو مت تولو
انسان کی ایک غلطی اس کے پورے ماضی کو مٹا دینے کا سبب نہیں بننی چاہیے۔ اصل انصاف یہ ہے کہ نیکیوں اور برائیوں دونوں کو دیکھا جائے۔
قدردانی انسان کو بڑا بناتی ہے
بادشاہ نے آخرکار خادم کو آزاد کر دیا، اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ غلطی مان لینا اور دوسروں کی قدردانی کرنا، انسان کو حقیقی بادشاہت عطا کرتا ہے۔
رشتوں اور تعلقات کو نبھانے کے لیے برداشت ضروری ہے
اگر کوئی قریبی رشتہ دار، دوست یا ساتھی ایک لغزش کر بیٹھے تو ہمیں اس کی ساری اچھائیاں یاد رکھنی چاہئیں، تاکہ تعلقات قائم رہ سکیں۔
خلاصہ
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ دوسروں کے ساتھ انصاف محبت اور قدردانی کے ساتھ ہونا چاہیے، نہ کہ غصے اور وقتی جذبات کے ساتھ۔