دنیا اور آخرت کی مثال
دنیا اور آخرت کی مثال
وعن المستورد بن شداد, قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول والله ما الدنيا في الاخرۃ الا مثل ما يجعل أحدكم أصبعه في اليم فلينظر بم يرجع۔۔
حضرت مستورد ابن شداد رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا’’ کہ خدا کی قسم اخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی کو سمندر میں ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ وہ انگلی کیا چیز لے کر واپس آئی ہے۔۔
تفصیل
واللہ یہاں قسم مبالغہ کے طور پر ایا ہے اور کوئی مقصد نہیں ہے۔۔ اور ما الدنيامیں لفظ( ما) نفی کے معنی میں ہے۔۔ وفي الاخرۃ میں( فی) کا لفظ مقابل اور بد لیت کے معنی میں ہے۔۔
يم) سمندر اور دریا کو کہتے ہیں ۔۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی نعمتیں اور ساز و سامان آخرت کے دائمی نعمتوں کے مقابلے میں ایسی ہے جس طرح کوئی شخص اپنے ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی دریا اور سمندر میں ڈبو ڈال دیتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کہ سمندر کے کثیر پانی کے مقابلے میں اس کی انگلی کے ساتھ کتنا پانی لگا ہے– اسی طرح دنیا کی کمتر اور حقیر نعمتیں ہیں جوزوال پذیر بلکہ سریع الزوال ہیں آخرت کی دائمی اور کثیر مقدار نعمتوں کے سامنے اس کی کیا حیثیت ہے؟
یہ تمثیل بھی سمجھنے کے لیے ہے ورنہ عارضی اور فانی دنیا کی حقیقت دائمی اخرت کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے– لہذا انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا کی فانی نعمتوں پر آخرت کی دائمی نعمتوں کو قربان نہ کرے بلکہ ہر لمحہ یہ سوچتا رہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے یہاں فصل آگاتا ہے اور وہاں اخرت میں پھل کھانا ہے۔۔
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
دنیا ایک بے حیثیت چیز ہے
وعن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بجدي أسك ميت قال أيكم يحب أن هذا لہ بدرهم فقالوا ما نحب انه لنا بشيء قال فوالله للدنيا أهون على الله من هذا عليكم۔۔
اور حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم” بکری کے ایک ایسے مردہ بچہ کے پاس سے گزرے جس کے کان بہت چھوٹے تھے، یا کٹے ہوئے تھے، یا اس کے کان تھے ہی نہیں، چنانچہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” کہ تم میں ایسا کوئی شخص ہے جو اس کو ایک درہم کے عوض پسند کرے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم تو اس کو کسی بھی چیز کے عوض لینا پسند نہیں کرتے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کی قسم یہ دنیا خدا کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ بے وقعت وہ کمتر ہے جیسا کہ تمہاری نظر میں یہ مردہ بچہ ذلیل و حقیر ہے۔۔
تفصیل
جدی، بکری کے چھوٹے بچے کو جدی، کہتے ہیں – اسک بکری کے اس بچے کو کہتے ہیں جس کے کان بالکل کے ہوئے ہوں، یا بالکل نہ ہو، یا چھوٹے چھوٹے ہو، یہ اس کے بے حقیقت اور لذت وحقارت کی طرف اشارہ ہے خصوصا جب کہ وہ بچہ مرا ہوا مردار بھی ہو۔۔
سرکارے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مثال سے دنیا کی حقیقت اور بے ثباتی اور بے حیثیت و بے حقیقت ہونے کی طرف انسانوں کو توجہ فرمایا ہے کہ مقصد زندگی اخرت ہے اس کو فراموش نہیں کرنا چاہیے اور دنیا کی محبت سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ ایک حدیث میں ہے حب الدنيا راس كل خطيئة، اور دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا، ترك الدنيا راس كل عبادۃ دنيا،
اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی محبت میں گرفتار شخص کا ہر کام خود غرضی اور لالچ کی بنیاد پر ہوتا ہے اہل اللہ اور اہل معرفت نے کہا ہے کہ جس شخص کے دل میں دنیا کی محبت بیٹھ گئی تو پوری دنیا کے اولیاء اور مرشدین اس کو راہ راست پر نہیں لا سکتے ہیں اور جس شخص نے دنیا کو دل سے نکال دیا تو پوری دنیا کے مفسدین اس کو گمراہ نہیں کر سکتے ہیں۔۔
دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، الدنيا سجن المؤمن وجنة الكافر
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں” کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا” دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے
تفصیل
سجن المؤمن، اس حدیث کے دو مفہوم بیان کیے گئے ہیں پہلا مفہوم یہ ہے کہ دنیا مومن کے لیے خیر خوان کی طرح ہے مطلب یہ ہے کہ مومن کے لیے اللہ تعالی نے اخرت میں جو عظیم نعمتیں اور بڑا ثواب اور اجر عظیم تیار کیا ہے اس کے مقابلے میں مومن کے لیے دنیا کی زندگی قید خانے کی طرح ہے اگرچہ وہ دنیا میں اسائش کی زندگی گزارتا ہو اسی طرح کافر کے لیے اخرت میں جو قسم قسم کے عذاب تیار کیے گئے ہیں اس کے مقابل میں کافر کے لیے دنیا کی زندگی ایسی ہے جیسے وہ جنت میں رہ رہا ہو اگرچہ اس کو یہاں تکلیف بھی ہو اور مصیبت میں پڑا ہوا ہو اسی طرح اسی حقیقت کے پیش نظر ایک دفعہ ایک غریب یہودی نے حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ اپ کے نانا جان کا یہ قول ہے کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے میری اور اپ کی حالت پر کیسے صداقت ا سکتا ہے کیونکہ تم گھوڑے پر سواری کرتے ہو عیش عشرت کی زندگی گزارتے ہو اور میں مصائب اور علام اور تکالیف بیماری سے بھرپور زندگی گزارتا ہوں۔۔
اس کے جواب میں حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے مندرجہ بالا حدیث کا یہی مفہوم بیان فرمایا کہ اخرت کے مصائب کے مقابلے میں تم یہاں دنیا میں جنت میں ہو اس حدیث کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے کیونکہ ہر ہر لمحہ مومن اس دنیا میں احتیاط کے ساتھ گزارتا ہے قدم قدم پر اس کے لیے پابندیاں ہیں اور وہ انتہائی پابندی کی زندگی گزارتا ہے گویا یہ دنیا اس کے لیے قید خانہ ہے اور وہ اس میں قیدی کی حیثیت سے زندگی گزار رہا ہے اس کے برعکس کافر اس دنیا میں کسی پابندی کا قائل نہیں اور نہ پابندی ہے دنیا کے ہر جائز وہ ناجائز لذت سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔۔
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے لکھا ہے کہ” یہ دوسرا مفہوم زیادہ واضح اورحدیث کے مطابق ہے۔۔
کون کہتا ہے کہ مومن مر گیا
قید سے چھوٹا وہ اپنے گھر گیا
===============
=============