دورِ حاضر میں مسلمانوں پر ذلت

دورِ حاضر میں مسلمانوں پر ذلت دورِ حاضر میں مسلمانوں پر ذلت

دورِ حاضر میں مسلمانوں پر ذلت

اور اللہ کی نصرت کا فقدان

وجوہات اور علاج

(قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک فکری و اصلاحی تجزیہ)

تعارف

امتِ مسلمہ، جو کبھی دنیا کی قیادت کرتی تھی، آج بے بسی، زوال، غلامی اور ظلم کا شکار ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں مسلمان محکوم، مظلوم، پسماندہ اور منتشر نظر آتے ہیں۔ کیا یہ وہی امت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا:

“کُنتُم خَیرَ أُمَّةٍ أُخرِجَت لِلنَّاسِ”

(تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی) — (آل عمران: 110)

تو پھر آج اس امت پر ذلت کیوں مسلط ہے؟ اللہ کی نصرت، جو صحابہ کرامؓ کے ساتھ تھی، وہ آج ہمیں کیوں نہیں ملتی؟ کیا اللہ کی سنت بدل گئی ہے؟ ہرگز نہیں! اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا:

“إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ”

(اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں) — (الرعد: 11)

یہ تحریر اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش ہے کہ آج کے مسلمان ذلت میں کیوں ہیں، اللہ کی نصرت کیوں رکی ہے، اور اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے۔

اللہ کی نصرت کا مطلب اور اس کی شرائط

نصرتِ الٰہی کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص مدد، جس کے نتیجے میں کمزور اور مظلوم حق پر ہوتے ہوئے طاقتوروں پر غالب آ جاتے ہیں۔ قرآن و حدیث کے مطابق نصرتِ الٰہی کے لیے کچھ لازمی شرائط ہیں

ایمان اور تقویٰ

“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ”

(اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے (یعنی اس کے دین کو سربلند کرو گے) تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا) — (محمد: 7)

اتحاد اور اطاعت

“وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا”

(اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو) — (آل عمران: 103)

عدل و انصاف کا قیام

“إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ”

(بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے) — (النحل: 90)

نیکی کا حکم، برائی سے روکنا

“كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ… تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ”

(تم بہترین امت ہو… جو نیکی کا حکم دیتی ہے اور برائی سے روکتی ہے) — (آل عمران: 110)

ذلت کے اسباب قرآن و حدیث کی روشنی میں

دنیا کی محبت اور موت سے نفرت

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“قریب ہے کہ قومیں تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے تھالی پر ٹوٹتے ہیں”۔ صحابہؓ نے عرض کیا: کیا ہم اُس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ فرمایا: نہیں! بلکہ تم اس وقت زیادہ ہوگے، لیکن تم میں “وَهن” پیدا ہو جائے گا۔ عرض کیا: وہ کیا ہے؟ فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کا ڈر۔

(سنن ابی داؤد: 4297)

یہی آج کی امت کا حال ہے۔ دنیا کی آسائشوں میں گم، شہرت و دولت کی لالچ میں مگن، اور دین سے غافل۔

اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی

“وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا”

(جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے، وہ کھلی گمراہی میں ہے) — (الاحزاب: 36)

نفاق اور اخلاقی انحطاط

ہماری صفوں میں منافقوں کی کثرت ہے، جو مسلمانوں کو کمزور کرنے میں لگے ہیں۔ سود، رشوت، زنا، جھوٹ، دھوکہ دہی، شراب، فحاشی — ان سب نے امت کو گھن کی طرح چاٹ لیا ہے۔

فرقہ واریت اور انتشار

امت میں شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، وہابی، سلفی کے نام پر اتنی تقسیم ہو چکی ہے کہ دشمن ہمیں آسانی سے ختم کر رہا ہے۔ قرآن ہمیں اتحاد کا حکم دیتا ہے:

“وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا”

(مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ، جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا) — (الروم: 31-32)

تاریخی عبرت انگیز حکایات

سقوطِ بغداد (1258ء)

جب عباسی خلافت دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت تھی، مسلمان علم و تہذیب میں آگے تھے، لیکن بدعنوانی، تعیش پسندی اور اندرونی سازشوں نے تاتاریوں کو کامیاب کیا۔ لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔ بغداد کا علمی خزانہ دریائے دجلہ میں بہا دیا گیا۔

اندلس (اسپین) کا زوال

جب مسلمان اسپین میں 800 سال تک حکمران رہے، لیکن آخر میں دنیا پرستی، تعیش اور فرقہ واریت کے باعث نصرتِ الٰہی اٹھ گئی۔ عیسائیوں نے یکے بعد دیگرے تمام مسلمان ریاستوں کو ختم کیا، حتیٰ کہ غرناطہ بھی 1492ء میں سقوط کا شکار ہوا۔

خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ (1924ء)

پوری امت مسلمہ کی مرکزیت ختم ہو گئی۔ قومی ازم، مغربی استعمار، اور دین سے دوری نے ملت اسلامیہ کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔

موجودہ دنیا میں مظالم کی مثالیں

فلسطین: 75 سال سے مسلمان مظلوم، بے گھر، اور بے یار و مددگار۔

کشمیر: مسلسل ظلم، قید و بند، خواتین کی بے حرمتی۔

شام: لاکھوں لوگ مارے گئے، شہروں کو ملبے میں بدل دیا گیا۔

برما (روہنگیا): نسل کشی، پناہ گزینی، خاموشی کا شکار۔

کیا یہ سب اللہ کی مدد کے بغیر ہو رہا ہے؟ نہیں، بلکہ ہم نے اس نصرت کو خود کھو دیا ہے۔

اصلاحی پیغام: نصرت کی بحالی کا راستہ

رجوع الیٰ اللہ

“وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ”

(اے ایمان والو! سب کے سب اللہ کی طرف رجوع کرو تاکہ فلاح پاؤ) — (النور: 31)

علم و تعلیم کی طرف واپسی

آج مسلم دنیا جہالت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ علم سے محرومی امت کے زوال کی بڑی وجہ ہے۔ قرآن کا پہلا حکم “اقْرَأْ” ہے۔

مسلم اتحاد

تمام فرقوں، قومیتوں اور تعصبات کو چھوڑ کر ایک امت بننا ہو گا۔

عدل و شریعت کا نظام

جب تک اللہ کا نظام نافذ نہیں ہو گا، ذلت باقی رہے گی۔ ہمیں سودی نظام، مغربی جمہوریت، اور ظلم پر مبنی بادشاہتوں کو مسترد کرنا ہو گا۔

نتیجہ

آج کا مسلمان اپنے زوال کا خود ذمہ دار ہے۔ اللہ کی نصرت اسی کے ساتھ ہے جو اس کے دین کا سچا وفادار ہو۔ جب تک ہم توبہ، اتحاد، علم، عدل اور ایمان کی طرف نہیں لوٹیں گے، ہم دنیا میں ذلیل و خوار رہیں گے۔ وقت ہے کہ ہم جاگ جائیں، ورنہ تاریخ ہمیں بھی ان اقوام کی فہرست میں شامل کر دے گی جنہوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور مٹا دی گئیں۔

“فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ”

(پس اے عقل والو! عبرت حاصل کرو) — (الحشر: 2)


سورة الحشر

سورة العصر قرآن مجید کی ایک مختصر مگر نہایت پر اثر سورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *