دکھ میں دعوت؟

 دکھ میں دعوت؟ ایک ایسی روایت جو ہمیں بدلنی ہے  دکھ میں دعوت؟ ایک ایسی روایت جو ہمیں بدلنی ہے

 دکھ میں دعوت؟

ایک ایسی روایت جو ہمیں بدلنی ہے

جس گھر میں کوئی فوت ہو جائے، وہاں صرف آنکھیں نم نہیں ہوتیں، پورا دل بجھ جاتا ہے۔ گھر کے افراد ایک ایسے نازک اور ٹوٹے ہوئے لمحے سے گزر رہے ہوتے ہیں جہاں انہیں صرف اور صرف ہمدردی اور سکون کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے کچھ معاشرتی رویے، نادانی میں، ان کے دکھ کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔

جب غم کی جگہ دعوت لے لے

یہ ایک عام ہوتا جا رہا ہے کہ جنازے کے بعد لوگ میت والے گھر سے کھانے کی توقع لے کر آتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی تقریب یا دعوت کا اہتمام کیا گیا ہو۔ دیگیں چڑھتی ہیں، لوگ مزے سے بیٹھ کر کھاتے ہیں، اور تو اور، کھانے کے بعد نمک کم تھا یا چاول ٹھیک نہیں تھے جیسے جملے بھی سننے کو ملتے ہیں۔

تصور کریں، یہ وہی لمحہ ہوتا ہے جب ایک ماں کا بیٹا دنیا سے گیا ہوتا ہے، ایک بھائی کی میت سامنے رکھی ہوتی ہے، اور ہم اُس غم زدہ گھر کے کچن میں ذائقے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ کیا یہ انسانیت ہے؟

سنت کیا کہتی ہے؟

ہمارا دین اسلام اس معاملے میں بالکل واضح ہے۔ فوتگی والے گھر والوں پر کھانے کا اہتمام کرنا واجب نہیں، بلکہ اس کے برعکس ہے

“جب حضرت جعفرؓ شہید ہوئے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، کیونکہ ان پر ایک بڑا صدمہ آیا ہے” (سنن ابی داؤد، حدیث 3132)

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ میت والے گھر کو کھانا دینا سنت ہے، ان سے کھانا مانگنا یا توقع کرنا نہیں۔ جو لوگ دور دراز سے آتے ہیں، ان کی خاطر تواضع اگر صدقِ دل سے کی جائے تو وہ محبت اور حسنِ اخلاق کا حصہ ہے، لیکن اگر محض رسم، رواج یا “لوگ کیا کہیں گے” کے دباؤ میں دیگیں پکا دی جائیں تو یہ دکھ کے گھر کو دعوت کا سماں بنا دیتا ہے، جو سراسر غلط ہے۔

رسموں کا بوجھ: ایک خود ساختہ آزمائش

افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات یہ دباؤ باہر سے نہیں آتا بلکہ میت والے گھر کے بعض افراد خود ہی اس رسم کو نبھانے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ وہ دل سے سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ کرنا ضروری ہے، یا انہیں لگتا ہے کہ یہ ان کی “ذمہ داری” ہے، حالانکہ وہ ایک آزمائش کے لمحے کو خود اپنے لیے مزید بوجھ بنا رہے ہوتے ہیں۔ ایسا کرنا کسی طور درست نہیں۔

اگر گھر میں قرآن خوانی ہو رہی ہے، اللہ کا ذکر ہو رہا ہے، ایصالِ ثواب کے لیے دعا کی جا رہی ہے، اور ساتھ میں سادہ پانی یا ہلکی پھلکی چیز پیش کی جائے تو یہ یقیناً ایک اچھی بات ہے۔ مگر یہ

  شور شرابہ

  دعوت جیسا ماحول

  رسم و رواج کا بوجھ

  اور کھانے کے بعد کی شکایتیں

یہ سب نہ صرف خلافِ شریعت ہیں بلکہ میت والے گھر والوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ کئی علماء کہتے ہیں کہ ایسی دعوتوں سے دل سخت ہو جاتے ہیں، اور اگرچہ اس کی کوئی صحیح حدیث میں صریح سند نہیں، مگر اس کا مفہوم ضرور درست ہے۔ کیونکہ جو منظر میت کے بعد پیدا ہوتا ہے وہ اکثر احساس کی بجائے نمائش سے بھرپور ہوتا ہے۔

ایصالِ ثواب کا صحیح طریقہ

ہمیں اپنے عمل سے ایصالِ ثواب کرنا ہے، نہ کہ تکلف سے۔ اگر واقعی محبت ہے مرحوم سے، تو ان کے لیے

  قرآن پڑھیں

  دعائے مغفرت کریں

  ان کے بچوں، بیواؤں، یا مقروضوں کا ساتھ دیں

  اور اگر کھانا ہی دینا ہے، تو کسی مسکین کو دیں، خاموشی سے

اور اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے، بغیر کسی دکھاوے یا رسم کے، مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لیے کسی مستحق، کسی یتیم، کسی بیوہ یا ضرورت مند خاندان کو کھانا یا کوئی اور چیز دینا چاہے تو یہ ایک بہت بہتر عمل ہے۔ اس میں اجر بھی ہے، سکون بھی، اور مرحوم کے لیے حقیقی فائدہ بھی۔

آئیے بدلیں

آئیے ہم اپنی اس خوبصورت روایت کو، جو دعا، قرآن اور صبر سے جڑی ہے، دوبارہ زندہ کریں اور اس رواج کو، جو دکھ کو دکھاوا بنا دیتا ہے، خاموشی سے دفنا دیں۔ دکھ میں شریک ہونے کا مطلب صرف جسمانی حاضری نہیں، دل سے جڑ جانا ہوتا ہے۔

اس پوسٹ کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں لیکن ایک اہم معاشرتی اور دینی مسئلے کے اوپر توجہ دلوانا ہے۔ اسے صدقہ جاریہ کے طور پر ضرور شیئر کیجئے۔

اللّٰہ ہمارے مرحومین کی مغفرت فرمائے، اور ہمیں دکھ میں مرہم رکھنے والا بنائے، بوجھ بڑھانے والا نہیں۔ آمین۔


عورت کیا چاہتی ہے؟

سورة نوح مكتوبة كاملة بالتشكيل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *