رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے لیے چند شرائط ہیں

رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے لیے چند شرائط ہیں رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے لیے چند شرائط ہیں

رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے لیے چند شرائط ہیں

بیمار نہ ہونا

اگر ایسی بیماری ہو کے اگر روزہ رکھے تو اس کی پوری طاقت ختم ہو جائے اور وہ کمزور ہو جائے اور شدید بیماری بڑھنے کا خدشہ ہو تو ایسی حالت میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے

حیض وہ نفاس والی عورت پر روزہ رکھنا فرض نہیں ہے لیکن اس  کی قضا لازم ہے

 مقیم ہونا اگر کوئی شخص مسافر شرعی ہو تو اس کے لیے روزہ رکھنا مباح ہے

قضا روزوں کے لیے نیت لازم ہے

اگر وضو فرض ہو گیا یا غسل فرض ہو گیا تو روزہ فاسد نہیں ہوگا اگر اسی طرح  عورت حیض و نفاس والی ہو جائے تو روزہ فاسد ہو جائے گا

فرض روزوں کی  قضا کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے جب چاہے آپ روزہ رکھ سکتے ہیں

اگر کسی نے رمضان کے 30 یا 29 میں  سے کسی  ایک روزے کا بھی انکار کیا تو وہ کافر ہو جائے گا

اگر کسی نے منت مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں تین روزے رکھوں گا پس جب وہ کام ہو جائے تو تین روزے رکھنا اس پر فرض ہے  مگر ان کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہوگا

(نفل روزے کا حکم)

نفل روزہ شروع کرنے کے بعد لازم واجب ہو جاتا ہے اگر مکمل کرنے سے پہلے روزہ توڑ دے تو وہ روزہ  کی قضااس پر   واجب  ہو جاتی ہے

عاشورہ کا روزہ

رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشورہ کے دو روزے فرض تھے لیکن بعد میں عاشورہ کے روزوں کو فرضیت سے خالی کر دیا گیا اور رمضان کے روزوں کو فرض کیا گیا اور یہ عاشورہ کے دو روزے رکھنا مستحب ہے

ایام بیض کے روزے

ہر ماہ تین روزے رکھنا مستحب ہے اور یہ صوم الدہر( ہمیشہ روزہ رکھنا) کی ایک شکل ہے اس لیے کہ الحسنۃ بعشرۃ امثالھا۔ کے  قاعدہ سے تین روزے 30 روزے ہوں گے یعنی ایک دن کا روزہ 10 دنوں کے روزوں کے برابر ہوگا پس ہر ماہ تین روزے رکھنے والا سوم الدہر ہوا اور رمضان کے روزوں کو دس میں ضرب نہیں دیں گے ان کو محفوظ رکھیں گے یہ تین روزے ایام بیض یعنی .13 .14 15. تاریخوں کےہوں

صوم داؤدی

صوم الدهر کی ایک صورت صوم داؤدی ہے یعنی ایک دن روزہ رکھا جائے اور دوسرے دن نہ رکھا جائے اسی طرح سال بھر روزے رکھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روزوں کو پسند فرمایا کیونکہ اس صورت میں نہ بھوکا رہنے کی عادت پڑے گی اور نہ روزہ رکھنے سے کمزوری آئے گی اس طرح کے روزوں کو اللہ تعالی بہت زیادہ پسند فرماتا ہے

 شوال کے چھ روزے

رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے مستحب ہے اور یہ صوم الدھر( ہمیشہ روزے رکھنے)  کی سبب سے ادنی شکل ہے اور یہ صوم الدہر اس طرح ہے کہ شوال کے چھ روزے رمضان کے 30 روزوں کے ساتھ مل کر 36 ہو جائیں گے رمضان کے روزے اگر 29 بھی ہوں گے تو  حکما 30 شمار ہوں گے کیوںکہ حدیث میں آیا ہے کہ اگر رمضان 29 دن میں پورا ہوا تو بھی 30 کا ثواب ملے گا

شوال کے روزے رمضان کے فورا بعد رکھےبھی جا سکتا ہے اور الگ الگ کر کر بھی رکھے جا سکتے ہیں لیکن رمضان (یعنی 2شوال) کے ساتھ ہی رکھنا افضل ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *