روتے ہوئے بچوں کو کیسے چپ کرائے؟
کسی بھی ماں کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنے بچے کا گلا گھونٹ دے گی ۔اس طرح اس بات پر بھی یقین نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی محض اپنے روتے ہوئے بچے کو خاموش کرانے کے لیے اسے سیڑھیوں پر سے نیچے پھینک دے گی ۔ماں کی ممتا بہر حال بے لوث محبت کی مثال ہوتی ہے ،اور ماؤں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی بھی مرحلے پر اپنے جگر گوشے سے یہاں تک بےزار ہو سکتی ہے ،لیکن شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ کچھ مائیں ایسی بھی ہے جنہیں یہ تجربات ہو چکے ہیں وہ بعض اوقات جذباتی طور پر اتنی پریشان ہو چکی ہے کہ انہیں نے اپنے بچوں کا گلا گھونٹنے کے متعلق بھی سوچا اور انہیں پھینک دینے کے بارے میں بھی سوچا ہے۔عملا انہوں نے یہ دونوں کام نہیں کیے لیکن ایک ماں کے ذہن میں اس قسم کے خیالات کا پیدا ہونا بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔
ایک خاتون کے دو بچے تھے منیر اور مشیر۔ منیر کی عمر چھ سال تھی اور مشیر کی عمر تین سال کی تھی عام طور پر چھوٹے بچے 24 گھنٹے میں دو سے چار گھنٹے رونے میں مصروف رہتے ہیں ،لیکن جب رونی کی حد اس سے بڑھ جائے تو تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔
ان خاتون کا کہنا تھا میرے بچے جب تک جاگتے ہیں بس روتے ہی رہتے ہیں میرا بیٹا منیر تو ایک لمحے کے لیے چپ نہیں ہوتا ، مسلسل روتا رہتا ہے اور ساتھ مہینے کی عمر تک تو وہ سوتا بھی بہت کم تھا،یہی حال مشیر کا تھاجب تک وہ تین مہینے کا نہیں ہو گیا تب تک وہ شاید کبھی خاموش ہی نہیں رہا، کئی بار تو ایسا ہوا کہ اپنے بچوں سے بے انتہا محبت کے باوجود میں نے ان پر ان کے رونے سے تنگ ا کر جسمانی طور پر سختی بھی کی یعنی کبھی کبھی ایک آدھا طماچہ بھی جڑ دیا ۔یوں تو میں بہت اعتدال پسند ہوں لیکن اس کے باوجود اپنے بچوں کے مسلسل رونے کی وجہ سےمجھے اکثر غصہ اآجاتا تھا، ایک مرتبہ تو یہ ہوا کہ میں سوچنے لگی کہ کہیں میرا منیر بیمار تو نہیں ہے ،چنانچہ میں اسے معالج کے پاس لے گئی لیکن وہاں سے مجھے جواب ملا کہ میرا بچہ بالکل ٹھیک ہے معالج نے بتایا کہ میں خواہ مخواہ بات کا پتنگڑ بنا کر پریشانی مول نہ لوں،معالج کے اس مشورے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں خود ہی اپنے بچوں کو چپ رکھنے یا اس کا رونا کم کرنے کے لیے کچھ کروں گی،چنانچہ میں نے اپنی ایک گہری سہیلی سے اس کا تذکرہ کیا اتفاق سے سہیلی کے بچے کے ساتھ بھی یہی دشواری ہو رہی تھی ،کہ وہ روتا بہت تھا اس نے بھی اپنے بچے کے سلسلے میں نہ جانے کتنی خواتین سے مشہورے کیے تھے اور اور بلا آخر اب اس کے بچے کے رونے کی عادت ختم ہو چکی تھی، اس سہیلی اور اس کی شنا سا دیگر خواتین کے مشہوروں کے نتیجے میں آخر میں نے وہ راز پا ہی لیا۔ ایک بات اور بتا دوں کہ میرے بچے اوپر کے دودھ پر پل رہے تھے ،میں نے انہیں گائی کا دودھ پلاتی تھی کئی تجربہ اور کوششوں کے بعد پتہ چلا کہ منیر گائی کے دودھ حساسیت کا شکار تھا یوں مجھے منیر کے رونے کا سبب تو معلوم ہو گیا، لیکن مشیر کے رونے کا سبب پھر بھی نہ معلوم ہو سکا۔
بچوں کا رونا کوئی انوکی بات نہیں دنیا میں ہر جگہ ایسے بچے ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی سبب سے بہت زیادہ روتے ہیں ،خاص طور پر بہت زیادہ رونے والے شیر خوار بچوں کی تعداد تو خاصی ہوتی ہے۔ برطانیہ میں تو ایسے بچوں کے والدین کی ایک باقاعدہ انجمن بنی ہوئی ہے ،جو دوسرے والدین کی مدد کرتی ہے اس وقت برطانیہ میں اس انجمن کے اراکین کی تعداد چار سو کے لگ بھگ ہے۔
روتے ہوئے بچوں کا مسئلہ صرف ان خاتون ہی پر ختم نہیں ہوتا انہی کی ایک اور شناسا بھی کچھ اسی قسم کے مسئلے سے دوچار تھیں ،ان کے بھی دو بچے تھے ان میں سے ایک تو بڑا معصوم اور ہنستا کھیلتا بچہ تھا ،لیکن ایک بچہ بہت زیادہ روتا تھا رونے والے اس بچے کے متعلق تو ماں باپ کو اندازہ ہو گیا کہ وہ کسی بھی لمحے ماں کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا ،گویا اسے بہت زیادہ محبت کی ضرورت تھی ،اب سوال یہ تھا کہ ماں اگر صرف کسی بچے پر توجہ دے تو پھر دوسرے بچے کا کیا ہوگالیکن بچوں کا باپ سے بہت ذہین تھا اس کے پاس فرصت بھی تھی چنانچہ ماں ایک بچے کو دیکھتی اور باپ دوسرے بچے پر توجہ دیتا یوں یہ مسئلہ حل ہوگا۔
برطانیہ کی ایک خاتون نے رونے والے بچوں کے مسئلے پر خصوصی توجہ دی ہےانہوں نے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ایک کتاب بھی لکھ دی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ والدین چھ ماہ سے کم عمر کے بچے پر بہت زیادہ توجہ نہیں دے سکتےاس لیے بچے کے روتے ہی ہمیشہ گود میں اٹھانے کی کوشش نہ کیجیے۔
یہ برطانوی خاتون بچے کو ماں کا دودھ پلانے کی حامی ہے وہ کہتی ہے کہ ماں کے دودھ کا شاید ہی کوئی ہو جو بچے کے لیے ہر طرح سے مناسب
ثابت ہو 10 بچوں میں سے ایک بچہ ایسا ہوتا ہے جو بہت زیادہ روتا ہے بچوں کے رونے کی مختلف انداز اور قسمیں ہوتی ہے مثلا ایک توبہت زیادہ روتا ہے لیکن بچہ کبھی سماجی ضرورت کے تحت بھی روتا ہے یعنی وہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توجہ اس پر مرکوز رہے ۔اسے بھرپور محبت حاصل ہو بچہ ایکتاہٹ اور مایوسی کا شکار ہو کر بھی روتے ہیں ۔اس کے علاوہ حساسیت کی کسی تکلیف کی بنا پر بھی روتے ہیں عام طور پرپہلوٹھی کے بچے بہت زیادہ روتے ہیں ان کا رونا ابتدائی عمر سے ہی شروع ہو جاتا ہے ان میں سے اکثر بچے تین سے چھ ماہ تک کی عمر کو پہنچنے کے بعد رونا بند یا کم کر دیتے ہیں۔