زکوۃ کا نصاب

زکوۃ کا نصاب زکوۃ کا نصاب

زکوۃ کا نصاب

[اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۲۷۷ ](البقرۃ:۲۷۷)

ترجمہ:بے شک جو لوگ ایمان کے ساتھ (سنت کے مطابق) نیک کام کرتے ہیں، نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب تعالیٰ کے پاس ہے، ان پر نہ تو کوئی خوف ہے، نہ اداسی اور غم۔

حدیث رسول: نبی ﷺ نے فرمایا:

” بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ “(صحیح بخاری:۸صحیح مسلم:۱۱۱)

اسلام کی پانچ بنیادیں ہیں (جس میں سے ایک) زکوٰۃ ادا کرنا(ہے)۔

(زکوۃ کی لغوی تعریف)

 زکوۃ کے لغوی معنی ہیں۔ بڑھنے کے، نیز پاک و صاف کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

(زکوۃ کی اصطلاحی تعریف)

مال نصاب حوالی کے 40 حصے کو زکوۃ کہتے ہیں ۔جو غیر ہاشمی مسلمان فقیر کی ملکیت میں دینے کے لیے نکالا جاتا ہے۔

(زکوۃ کب فرض ہوئی)

زکوۃ کی فرضیت روزوں کی فرضیت سے پہلے دو شوال میں ہوئی

(زکوۃ کی حکمت)

بخل، وہ معصیت کی گندگی کو دور کرنا ،درجات کا بلند ہونا، محتاجوں کی ضرورت پوری کرنا۔( یہ زکوۃ کے فائدے ہیں)

(زکوۃ کا حکم)

زکوۃ کی فرضیت پر تمام  امت کا اجماع ہے ۔جو شخص زکوۃ کی فرضیت سے انکار کرے گا اس پر کفر کا حکم ثابت ہوگا۔

(زکوۃ کس پر فرض ہے)

آزاد ہونا ۔مسلمان ہونا ۔بالغ ہونا ۔عاقل ہونا۔ وہ مالک ہونا کامل نصاب کا جس پر ایک سال گزرے۔

(وضاحت)

غلام کی دو قسمیں ہیں

نمبر ایک ،(مکاتب  غلام)

نمبر دو،(  ماذون غلام)

نمبرایک ۔آزاد ہونا۔ غلام پر زکوۃ فرض نہیں ہے ۔اگرچہ وہ (مکاتب )ہو یعنی وہ غلام جس کو اس کے آقا نے اس شرط پر آزاد کر دیا ہو ،کہ وہ اس قدر  روپیے کما کر اس کو دے ۔جب تک وہ روپیے اس قدر کما کر نہ دے غلام رہتا ہے، اور دینے کے بعد آزاد ہو جاتا ہے۔

(ماذون غلام) ہو وہ غلام جس کو اس کے آقا نے اجازت دی ہو کہ وہ کمائی کرے اور اپنے آقا (مالک) کو لا کر دے۔

(ان دونوں پر زکوۃ فرض نہیں ہے)

نمبر دو۔مسلمان ہونا۔ کافر پر زکوۃ فرض نہیں ہے ۔مسلمان ہونا جس طرح زکوۃ کے فرض ہونے کے لیے مسلمان ہونا شرط ہے ۔اسی طرح ادائیگی کی صحت کے لیے مسلمان ہونا بھی شرط ہے۔ کیوں کہ زکوۃ بغیر نیت کے درست نہیں ہوتی۔ اور کافر کا نیت کرنا درست نہیں ہے ۔یعنی کافر کو زکوۃ نہیں دی جا سکتی ہے۔

نمبر تین ۔بالغ ہونا ۔نا بالغ پر زکوۃ فرض نہیں ہے ۔اسی لیے اس کے ولی یعنی (والدین )سے   ادا کرنے کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

نمبر چار۔ عاقل ہونا ۔پاگل پر زکوۃ فرض نہیں ہے ۔نہ اس شخص پر جس کے دماغ میں کوئی بیماری پیدا ہوگئی ہو اور اس وجہ سے اس کی عقل میں  فتور آگیا ہو ،اور یہ نقصان  عقل اگر پورے سال بھر رہے گی تو زکوۃ فرض نہیں ہوگی۔

نمبر پانچ۔ نصاب کا کامل ہونا۔

نمبر چھ ۔اس مال کا ایسے قرض سے محفوظ ہونا جس کا مطالبہ بندوں کی جانب سے ہو سکتا ہو ۔خواہ وہ حقوق اللہ ہی ہو۔ جیسے زکوۃ( عشرہ خراج) گزشتہ سالوں کی ان کا مطالبہ  امام وقت کی جانب سے ہو سکتا ہے۔ یا وہ قرض بندوں کا ہو ،جیسے بیوی کا مہر ۔جو مال اس قسم کے  قرض میں  موجود ہو تو اس پر زکوۃ فرض نہیں ہے

نمبر سات ۔اس مال پر ایک سال کا پورا گزرنا ضروری ہے ۔بغیر ایک سال کے گزرے ہوئے مال پر زکوۃ نہیں دی جا سکتی ہے۔

(نمبر پانچ۔ کی تفصیل انشاءاللہ تعالی کل ضرور آئے گی)


زکوۃ: ضرورت مندوں کی خدمت اور روئے زمین پر غربت کے خاتمہ کی ضامن ہے۔۔

——–

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *