سامان سو برس کا ہے پل بھر کی خبر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل بھر کی خبر نہیں
اللہ تعالی نے ہم انسانوں کو زمین میں خلیفہ بنا کر بھیجا ہے عقل سلیم دے کر اشرف المخلوقات کا درجہ بخشا۔۔۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان ترقی کے مراحل طے کرتا گیا، ہر دور میں نئی ایجادات اور انقلابات اس کے قدم چومتے چلے گئے۔۔ انسان نے چاند تک رسائی حاصل کر لی۔۔ بس اتنا ہی نہیں بلکہ انسان نے جدید تکنیک کو بروے کار لا کر کائنات کے رازوں کو منکشف کیا۔۔ بے شک انسانوں نے وہ کار ہائے نمایاں انجام دیے، اور جن کاموں کو آج سے سو برس پہلے جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا تھا، انہیں سہل و اسان بنا دیا، مادہ پرستی اور ہر چیز کو اپنے اختیار اور قابو میں کرنے کی خواہش نے اس کی آنکھوں پر ہوس کا پردہ ڈال دیا۔۔ دنیا کمانے کی دھن نے اس کو آخرت سے بے فکر کر دیا زندگی اور موت کا کھیل سمجھنے سے آج بھی قاصر ہے۔۔۔
زندگی’’ یہ زندگی کیا ہے’؟ زندگی کہتے ہیں پیدائش سے موت تک کے سفر کو، لیکن اس ‘’پ’’ سے ‘’م’’ تک کے درمیان جو چیز ہے وہ ہے ہمارے رب کے منصوبے اور اس کے احکامات اور اس پر ہماری اپنی ترجیحات۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ سامان ضرورت کے ساتھ زندگی گزار کر جنت کے حقدار بنیں، یا بصورت دیگر نفس امارہ کی خواہشات اور اس دنیا کی رنگہنیوں و دل فریبیوں میں گھوم کر جہنم کے حقدار بنیں۔۔۔ فرعون کو اس کا دعوئے خدائی سمندر میں غرق ہونے سے نہیں بچا سکا، جس قارون کے خزانے کی صرف کنجیاں دس پہلوانوں کی ٹولیاں اٹھاتی تھی وہ اپنے آپ کو ملک الموت سے نہیں بچا پایا، مغرور شداد نے زمین پر اپنی جنت تو بنا لی مگر موت کی شکنجے میں پھنس گیا، نمرود کی موت کا سبب اللہ تعالی نے معمولی سے مچھر کو بنایا، جن وارثین کو ابو لہب اور اپنا سو برس کا سامان سمجھ رہا تھا اسی سامان نے اس کی بدبودار لاش سے منہ موڑ لیا، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا فرعون ابوجہل دو بچوں کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہوا، سکندر کی موت کا نقشہ شاعر رضا علی نے کچھ یوں کھینچا ہے۔۔۔۔
مہیا گرچہ سب اسباب ملکی اور مالی تھے
سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے
یہ منکرین حق۔۔۔ جنہیں پل بھر کی خبر نہ تھی مگر سامان سو برس کا رکھا کرتے تھے، ان کی اموات انے والے نسلوں کے لیے نہایت عبرت بنیں۔۔ کاش کہ موت میرا کام ہی تمام کر دیتی میرے مال نے مجھے کچھ نفع نہ دیا۔۔۔
اس نا پائیدار زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے، خلیل جبران’’ کا کہنا ہے کہ میں نے بار بار اس بات پر غور کیا کہ موت کیا ہے؟ اس کا زندگی سے کیا رشتہ ہے، ایک دفعہ میں نے ایک سمندری جہاز دیکھا جب وہ ساحل سے دور ہوتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا تب وہاں پر موجود لوگ کہنے لگے چلا گیا، میں نے سوچا اسی طرح دور ایک بندرگاہ ہوگی اور وہاں پر لوگ کہنے لگیں گے اگیا، شاہد اسی کا نام موت ہے ایک پرانی زندگی کا خاتمہ اور ایک نئی زندگی کا اغاز۔۔۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
دنیا کی زندگی تو چند روزہ و فانی زندگی ہے، اس کے برخلاف اخرت ابدی زندگی ہے۔۔ اج ہم ہے بینک بیلنس سوشل ولکچرر لائف کو اپنی پہچان بناتے ہوئے حرام و حلال کی تمیز کو بھلا بیٹھے مال جمع کرنے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مگن ہیں، تو پھر کیا ہم نے اپنے رب سے ملاقات کی تیاری کر لی؟ کیا ہمیں اپنے نامہ اعمال کے دائنے ہاتھ میں ملنے کا یقین ہے؟ کیا ہم جنت الفردوس کی خواہش اپنے دل میں رکھتے ہیں؟ نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔۔ ہم اس دورا ہے پر کھڑے ہیں کہ کب موت کا بے رحم پنجہ سختی کے ساتھ آدبوجے، جو ایک سچی حقیقت ہے۔۔ جس کی لپیٹ میں کسی بھی عمر کو رعایت نہیں بخشی جاتی۔۔ یہ چلتی سانس سے اس کی زندگی کے ضامن ہے۔۔ ہم اس آیت کریمہ کو بھلا بیٹھے’’ کہ پھر اس روز تمہیں ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔۔۔
=================
ماں کی محبت