سمجھ آئی جب وقت گزر گیا 786

 سمجھ آئی جب وقت گزر گیا  سمجھ آئی جب وقت گزر گیا

 سمجھ آئی جب وقت گزر گیا

 سمجھ آئی جب وقت گزر گیا 
سمجھ آئی جب وقت گزر گیا

راشد کی کہانی ایک عام ہے، لیکن گہرے سبق کی اظہارکرتی ہے۔ یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی

  جو زندگی کو محض ایک کھیل سمجھتا ہے۔ اس کا ماننا تھا کہ سمجھداری سے زندگی گزاری جا سکتی ہے، مگر حقیقت یہ تھی کہ اسے زندگی کا اصل مطلب اور اس کی پیچیدگیاں معلوم نہیں تھی۔

جوانی کا خواب اور بے فکری۔

راشد، ایک ہنس مک اور پر اعتماد لڑکا، اپنے بزرگوں کی نصیحتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا۔ اس کی نظر میں زندگی کا مقصد صرف اپنے شوق پورے کرنا اور آزادی سے جینا تھا۔ جب اس کے والد اسے گھر بنانے اور شادی کرنے کے بعد کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے، تو راشد اسے مذاق سمجھتا اور کہتا کہ زندگی اتنی مشکل نہیں، بس سمجھدار ہونا چاہیے۔ یہ اس کی جوانی کی بے فکری اور دنیا کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھتا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ وہ ہر مشکل کو اپنی سمجھداری سے حل کر لے گا۔
حقیقت کا سامنا: ذمہ داریوں کا بوجھ
وقت گزرا اور راشد نے اپنی پسند کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایک خوبصورت مکان بنایا اور اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کر لی۔ شروع میں سب کچھ خوابوں جیسا تھا، مگر جلد ہی اسے زندگی کی حقیقت کا سامنا کرنا پڑا۔ بجلی کے بل، بچوں کی بیماریاں، بیوی کی ناراضگی، دفتر کا دباؤ اور سسرال کے مطالبات—یہ سب ایک ساتھ اس کے کندھوں پر آ گئے۔ اس کی بے فکری اور سکون اب “ذمہ داری” میں بدل چکا تھا۔ وہ جس سکون کی تلاش میں تھا، اب وہ ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا تھا۔ ہر روز ایک نئی آزمائش اس کا انتظار کرتی تھی۔

تجربے کی سچائی: باپ کی نصیحت

ایک شام جب راشد تھکا ہارا گھر لوٹا تو اپنے والد کو صحن میں چائے پیتے دیکھا۔ وہ خاموشی سے ان کے پاس بیٹھ گیا اور اعتراف کیا، “ابا… آپ ٹھیک کہتے تھے۔” یہ جملہ راشد کے لیے صرف الفاظ نہیں تھے بلکہ تجربے کا نچوڑ تھا۔ یہ اس بات کا اقرار تھا کہ زندگی صرف باتوں سے نہیں بلکہ تجربات اور عملی آزمائشوں سے سکھاتی ہے۔ اس کے والد نے مسکرا کر جواب دیا کہ ہر چیز وقت پر سمجھ آتی ہے، اور زندگی صرف الفاظ سے نہیں، بلکہ عمل اور تجربے سے سکھاتی ہے۔
اخلاقی سبق: عمل اور تجربے کی اہمیت
اس کہانی کا اخلاقی سبق یہ ہے کہ زندگی کی اصل سمجھ صرف سننے سے نہیں، بلکہ خود عمل کرنے اور تجربہ حاصل کرنے سے آتی ہے۔ گھر بنانا اور شادی کرنا صرف خواب نہیں، بلکہ ذمہ داریوں کا ایک لمبا اور مشکل سفر ہے۔ جو شخص ان ذمہ داریوں کو اپنی زندگی کا حصہ بناتا ہے، وہی اصل معنوں میں زندگی کی گہرائیوں کو سمجھ پاتا ہے۔ راشد کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگرچہ جوانی میں ہم بہت سے خواب دیکھتے ہیں، لیکن زندگی کے کڑوے میٹھے تجربات ہی ہمیں حقیقت سے آشنا کرتے ہیں اور ہمیں ایک بہتر انسان بننے میں مدد دیتے ہیں۔۔

حکایت

ایک دن دو مسافر لمبے سفر پر روانہ ہوئے۔ ان کا راستہ ایک گہری ندی کے کنارے سے گزرا۔ ندی کے پار جانا بھی ضروری تھا، مگر وہ دونوں کنارے پر رکے اور ندی کو غور سے دیکھنے لگے۔

پہلا مسافربول ، “میں نے بہت کتابیں پڑھی ہیں، اور ندی پار کرنے کے کئی طریقے جانتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہاں پاؤں رکھنا ہے، پانی کا بہاؤ کیسے ناپنا ہے، اور تیرنا کیسے ہے۔”
دوسرا مسافر خاموش رہا اور بس ندی کی روانی کو دیکھتا رہا۔

پہلا مسافر اپنی باتوں میں مصروف رہا، مگر ندی پار نہ کی۔
دوسرا مسافر، جو کتابوں سے اتنا واقف نہ تھا، آہستہ آہستہ ندی میں اترا۔ پانی کبھی کمر تک آیا، کبھی اسے سنبھلنا مشکل ہوا، مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔ قدم بہ قدم، وہ ندی پار کر گیا۔

پہلا مسافر حیرت سے اسے دیکھتا رہا۔ جب دوسرا مسافر ندی کے پار پہنچا، تو اس نے پیچھے مڑ کر کہا 
“کتابوں کا علم اہم ہے، مگر اصل سیکھ وہی ہوتی ہے جو قدموں سے حاصل ہو۔ ندی کو سمجھنے کے لیے اس میں اترنا پڑتا ہے۔”


اخلاقی سبق 
زندگی ایک ندی کی طرح  ہے۔ صرف کنارے پر کھڑا ہو کر اسے سمجھا نہیں جا سکتا۔ جب تک کہ ہم خود عمل نہ کریں، خود نہ گریں اور سنبھلیں، تب تک ہمیں زندگی کی گہرائیوں اور اس کے بہاؤ کا اندازہ نہیں ہوتا۔

یہ حکایت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ زندگی کو صرف سمجھداری یا باتوں سے نہیں جیتا جا سکتا، بلکہ عمل، تجربہ، اور ذمہ داریوں کا سامنا ہی انسان کو مکمل بناتا ہے۔

===============

حجِ بیتُ اللہ کی فضیلت و اہمیت

===============

سوره الجن

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *