سمرقند فتح نہیں ہوا بلکہ دل فتح ہوئے chapter 1
سمرقند فتح نہیں ہوا بلکہ دل فتح ہوئے chapter 1
سمرقند تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا آسمان پر کالے بادلوں کی وجہ سے اپنے خود کا ہاتھ نظر نہیں آتا تھا آسمان پر کوئی تارہ نظر آتا نہ زمین پر کوئی چراغ نظرآتی تمام لوگ سو چکے تھے اس دنیا میں صرف ایک شخص جاگ رہا تھا رات کے اندھیرے میں یہ شخص اپنے گھر سے نکلا اور دائیں بائیں جھانکے بغیر سیدھا اپنے محل کے پاس چلا گیا اس نے اپنے محل پر ایسی تجلی کی نگاہ ڈالی کے اگراس میں انگارے ہوتے تو یہ محل خاک ہو جاتا مگر اس نے اپنے قدموں کو تیزکیا اور اپنے منزل مقصود کی طرف روانہ ہو گیا وہ شہر سے نکل کر درختوں کے ایسے جھنڈ میں داخل ہو گیا جہاں وحشی درندے اور خونخوار جانور کی دہشت ناک آواز سنائی دے رہی تھی جنگل اتنا خوفناک تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا مگر یہ آدمی اس خطرناک منظر سے بے پرواہ ہو کر منزل مقصود کی طرف چلتا رہا اگلا مقام اس سے بھی زیادہ خطرناک اور دل دہلا دینے والا تھا بس چلتے چلتے جب وہ اس پتھر کے پاس پہنچا جو مندر کے بازو میں تھا تو یہ دیکھ کر اس نے چند قدم پیچھے ہٹا لیے اس پر اتنا خوف طاری ہوا کہ عام لوگ خوفناک درندے کو دیکھ کر بھی اتنا نہیں گھبراتے مگر یہ اس پتھر اور مندر کو دیکھ کر اتنا گھبرا گیا وجہ یہ نہ تھی کہ وہ شخص کمزور انسان یا کم عمر کا تھا بلکہ وہ ایک دلیر شخص تھا لیکن بچپن ہی سے اس کے اندر مندر کے بارے میں اتنی خوفناک باتیں بتائی گئی کہ وہ اس کو دیکھ کر ڈرنا شروع ہوگیا کیونکہ اس مندر کے اندر کسی کو جانے کی اجازت نہ تھی کوئی اس مندر کے اندر جا بھی نہ سکتا تھا صرف اس میں وہی کاہن لوگ داخل ہو سکتے تھے جو نفس کی ریاضتیں کرے ہر قسم کی مشقتیں اٹھا کر اپنے اوپر دنیا کی تمام لزتوں کو حرام کرلیا وہی شخص اس مندر میں داخل ہو سکتا تھا
مندر کا خوفناک منظر
اگرچہ یہ شخص خوف کی وجہ سے اپنے قدم کو اگے نہ بڑھا سکا کچھ عرصے ٹھہرنے کے بعد وہ آپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے دروازے پر دستک دینے کا سونچ رہا تھا اتنے میں اندر سے ایک ڈراونی شکل دکھائی دینے لگی جس کی داڑھی لمبی اور چوڑی تھی یہ اسےدیکھ کر مزید خوفزدہ ہو گیا وہ اس کو دیکھ کر وہاں سے دور بھاگنے والا ہی تھا لیکن وہ ڈراونی شکل والا محافظ اس نےآنسانی آواز نکال کراس کو نام سے پکارا یہ سمجھ گیا کہ یہ مندر کا محافظ ہے اور یہ مجھے لینے کے لیے آیا ہے بس اس نے اس کے پیچھے پیچھے اپنا راستہ طے کیا لیکن وہ آگے چلتے چلتے وہ ایک سرنگ میں داخل ہو گیا جس کے دونوں طرف ایسے خطرناک تصویر کی مرتیاں رکھی ہوئی تھی ان کے آنکھوں سے سرخ شعلے نکل رہے تھے اور ان کے آنکھیں بڑے بڑےطاقتور لوگوں کے دل کو دہلا دیتے تھے اور سرنگ کی دونوں جانب ایسے سراخیں تھے جب کبھی ہوا پوری طاقت کے ساتھ چلتی تو ایسی آوازیں نکالتی کہ سننے والا کو بہرا کر دیتی یہ دونوں چلتے چلتے ان کاہنوں کے پاس پہنچے جنہیں کبھی کبھار بادشاہ ہی دیکھ سکتا تھا اور کوئی بادشاہ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ان کی بات کو رد کر سکے خدا نہ کرے کہ اگر ہم ان کاہنوں کی بات نہ مانے تو ہم پر کوئی مصیبت نہ آن پڑے یہ سمجھ کر ہر بادشاہ ان کی بات کو مانتا تھا یہ آدمی ہیبت اور خوف کی وجہ سے کاہینوں کو دیکھ بھی نہیں سک رہا تھا البتہ ان کے باتوں کو بڑی غور سے سن رہا تھااس نے اپنی نظریں جھکائے ہوئے گمان کیا کہ ان میں سے ایک کاہن سمرقند کا ماضی یاد کررہا ہے اور اہل وطن کی بد اعمالیوں پر آنسو بہا رہا ہے اور بڑے دکھ کے ساتھ بیان کر رہا ہے کہ مسلمان ہم پر کس طرح آفت بن کر ہمارے سمرقند کا تاج وہ تخت الٹ دیا اب ان کی تمام امیدیں ختم ہو چکی تھی اب یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم ان مسلمانوں کے تمام عمرغلام بن کررہیں گے ہم نے یہ سوچا کہ ہم ان کے حکمران کی خدمت میں اپنے ایک قاصد کو بھیجے جو ہماری شکایت اس حکمران کے سامنے پیش کریں تو ہم نے تم کو بھیجنے کا سوچا اس لیے کہ تم بڑے شجاعت اور دلیر آدمی ہو اور تم کو عربی زبان میں بڑی مہارت ہے کیا تم ان کے حکمران کے پاس جانے کے لیے راضی ہو اس نے کہا
جی ہاں میں راضی ہوں توکاہنوں نے کہا جا ؤہم تم کو دیفتاؤں کی توفیق سےہم تم کوروانہ کرتے ہیں یہ آدمی مندر سے باہر نکلا اب فخر کی وجہ سے اس کا سر بلند ہوا کہ اب اس کے پاؤں زمین پر اور دماغ آسمانوں پر دوڑرہا تھا وہ اپنے اندراتنی خوشی محسوس کر رہا تھا کہ انکے حکمران کے پاس اڑتا ہوا پہنچ جاؤں اوراس آدمی کو رات کے اندھیرا میں روشنی نظر آنے لگی کیونکہ اس کے لیے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ وہ بڑے کاہن سے ہم کلام ہوا ہیں اوریہ اپنا اعزاز سمجھتا ہے جو شاہد کسی کو نصیب ہوتا ہو اس نے سمجھ لیا کہ اب سمرقند کی آزادی اس کے ہاتھ میں ہےاب یہ تمنا کرنے لگا کاش یہ کاہن لوگ مجھے اسلامی فوج سے لڑنے کا ٹکرانے کا حکم دے تے تو میں لڑ کر اس سمرقند کو فتح کر لیتا اور تمام سمرقند والوں کو آزاد کر لیتا لیکن یہ اس کے خیام و خیال کی بات تھی سمرقند میں جو اسلامی حکومت تھی وہ اتنی وسیع اور طاقتور تھی کہ سمر قند کو موج کی طرح کہاں سے کہاں لے کر چلی جاتی
باب دوم بہت جلد آنے والا ہے
Chapter two is coming very soon.
=================================