سمرقند فتح نہیں ہوا بلکہ دل فتح ہوئے chapter 2

سمرقند فتح نہیں ہوا بلکہ دل فتح ہوئے chapter 2 سمرقند فتح نہیں ہوا بلکہ دل فتح ہوئے chapter 2

سمرقند فتح نہیں ہوا بلکہ دل فتح ہوئے chapter 2

اب اس شخص حیران کن سفر

اب یہ شخص طویل سفر کے لیے نکل پڑا  دن و رات ہفتے اور مہینے مسلسل اپنا سفر جاری رکھا سمرقند سے بخارا سے بلخ سے حلب سے  دمشق یہ طویل سفر ختم ہونے کو آتا ہی نہیں جب یہ ریاستوں میں داخل ہوتا تو انہیں دیکھ کر بہت پریشان وہ حیران ہو جاتا  کیونکہ یہ ریاستوں میں ایک سے بڑھ کر ایک چیز اس کو نظر آتی بلند و بالاتر عمارت وسیع اور عریض محلات حسین و جمیل انسان اور باحیا خواتین اور مختلف رنگوں کے پہاڑ ہزاروں باغات مختلف قسم کے میوے وہ دیکھتا ہی چلا جا رہا تھا مگر یہ عجائب ختم ہونے کو ہی نہیں تھے ان  عالی شان و بالاتر و حسین و جمیل انسان اور باحیا خواتین کو دیکھ کر اب اسکو سمرقند   ہیچ لگنے لگا  جس حکمران کے پاس وہ سمرقند کا قاصد بن کر جا رہا تھا وہ کوئی معمولی حکمران نہیں تھاوہ جو حکمران تھا شام عراق ایران  جیسی  بڑی بڑی  سلطنتوں کو کچل ڈالا تھا اس وقت مسلمانوں کا دار الحکومت دمشق تھا

 اب اس نے اپنا قدم دمشق میں رکھا

اب اس نے جب دمشق میں قدم رکھا تو وہاں کے لوگوں کو وہاں کے محلات کو وہاں کے عالی شان مساجد کو مدارس کو دیکھ کر وہ حیران وہ پریشان ہو گیا کیونکہ یہ دمشق دار الحکومت ہے مسلمانوں کا اگر یہاں سے کوئی فرمان جاری ہوتا تو تمام سلطنت جیسے سمرقند سےاسپین سےروم  سےقیصر سےکسری سےایران جیسی بڑی بڑی ریاست اس کے سامنے اپنی سر کو جھکا لیتے اب اس نے سوچا کہ اب اتنا بڑا حکمران ہے تو اب میں اس کے سامنے کیسے حاضر ہوں گا اب  میں اس حکمران سے نہیں مل پاؤں گا یہ اپنے اندر نہ امیدی لے کردمشق میں پھر رہا تھا اب رات ہو گئی اس نے مسافر خانے میں ایک رات گزاری جب صبح ہوئی تو اس نے اپنے جسم پر  خوبصورت لباس پہن کر خلیفہ سے ملنے کا ٹھان لیااب اس  کو خیال انے لگا کے  اتنی بڑی سلطنت کے بادشاہ سے میں کس طرح ملاقات کروں اگر مجھ سے کچھ غلطی ہو جائے گی تو یہ مجھے درندوں کے سامنے پھینک دے گا اور وہ مجھے چھیڑ پھاڑ کر کھا لیں گے یہ ڈر کی وجہ سے وہ پیچھے ہٹ گیا اس نے اپنا خیال کو بدل دیا اب وہ سمرقند واپس جانے کا سونچ لیا اب دمشق سے واپس ہو رہا تھا اتنے میں خیال آیا کہ میں اس خلیفہ کے گھر کو ایک بار دیکھ لوں یہ اتنی بڑی سلطنت کا مالک ہے میں اس کے مکان کو ایک بار دیکھ لوں گا پھر اس کے بعد اپنے وطن واپس ہو جاؤں گاجب وہ بازاروں میں اِدھر اْدھر گھومتا رہا تو اچانک اس کی نظر  ایک محل پر پڑی جو بہت بڑا وسیع وہ عریض محل تھا اس کے لمبے لمبے دروازے تھے اس میں لوگ آتے اور جاتے رہے تو یہ سوچنے لگا کہ اس کے اندر ہر کسی کو آنے کی اور جانے کی اجازت ہے کیوں نہ میں بھی اس کے اندر داخل ہو جاؤں یہ سوچ کر جب وہ اندر داخل ہوا تو دیکھ کر اور حیران وہ پریشان ہو کر بیٹھ گیااس کی چھتوں پر چاندی کےزنجیر لٹکی ہوئی تھی اس محل میں ہزاروں قسم کے کام ہو رہے تھے کہیں پر فتوے لکھے جا رہے تھے تو کہیں پر فرمان جاری کیے جا رہے تھے یہاں سے اگر فرمان جاری کیا جاتا تو اس پر ہر سلطنت والے کو سر جھکانا پڑتااب یہ سب دیکھتے دیکھتے اس نے ایک نمازی کے پاس جا کر بیٹھ گیا جب وہ نمازی سلام پھیرا تو اسے دیکھ کر سمجھ گیا کہ یہ ایک مسافر شخص ہےتو نمازی نے اس شخص سے پوچھا کیا حال ہے   اس نے کہا بس میں ٹھیک ہوں نمازی نے کہا پھر یہاں پر اپ کا آنا کیسا ہوا اس نے کہا کہ میں ایک کام سے آیا تھا مگر میں امید کھو چکا ہوں کہ میں اب یہاں کے امیر المومنین سے نہیں مل سکوں گااب وہ شخص امیر المومنین کے گھر کا پتہ پوچھا تو نمازی نے کہا چلو تم پہلے نماز پڑھ لووہ بیچارے کو نماز کا کیا پتہ وہ تو پہلے سے ہی ایک خطرناک دیفتاؤں کی پوجا کرتا تھا تو نمازی نے کہا بھائی تم نے کیا نماز پڑھ لی تو اس نے کہا میں نے نماز نہیں پڑھی تو اس نے کہا کہ پھر تم نماز پڑھ لو تو سمر قندی نے کہا میں نماز  کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تو نمازی سمجھ گیا کہ یہ ایک مسلمان نہیں ہےاس نے پوچھا بھائی پھر تمہارا مذہب کیا ہے اس نے کہا میں ایک غیر مسلم ہوں

قبول اسلام

اب نمازی سمجھ گیا کہ اس کا دل ایمان وہ اسلام کے اصولوں سے خالی ہےتھوڑی سی دیر میں اس نے دین کا پابند ہو گیا جس نے عربوں کو پوری دنیا کا حکمران بنا دیا تھا نمازی نے کہا آؤ میں تم کو امیر المومنین کا گھر بتاتا ہوں اس وقت امیر المومنین اپنے گھر میں کام کر رہے تھے یہ اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا اور اس کا چہرہ اسلام کے جمال وہ کمال کو بھا رہا تھا یہ داخل ہونے والے دروازے کی بجائے دوسرے دروازے سے نکلا اس وقت یہ بہت پریشان ہو گیا جب نمازی لکڑی کے دروازے والے تنگ مکان پر اپنی انگلی سے اشارہ کیا اور کہا کہ یہ ہے امیرمومنین کا گھرتو یہ سمر قندی نے کہا کہ بھائی کیا تم مجھ سے مذاق کر رہے ہو کیا یہ چھوٹا سا گھر جس میں یہ شخص جو اپنی دیوار کو لیپ رہا ہے اور یہ بوڑھیا جو اپنا گھر صاف کر رہی ہے کیا یہ امیرمومنین کا گھر ہے کیا تم مجھ سے مذاق تو نہیں کر رہے ہو  کہیں تمہارا ارادہ مجھ جیسے کمزور کو لوٹنے کا تو نہیں ہے کیا یہ جو ضعیف مرد اور ضعیف خاتون جو ہے وہ امیر المومنین ہیں تو نمازی نے کہا اے  سمرقندی تو جس گھر والے کو دیکھ رہا ہے افسوس کہ تجھے تو اس کو نہیں پہچان رہا ہے یہی تو ہے دارالحکومت کا بادشاہ یہی تو ہے امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز جو تمام بادشاہوں کے بادشاہ ہیں اب روئے زمین پر ان کے اتنا بڑا کوئی حکمران موجود نہیں ہے یہ  ضعیف خاتون جو ہے یہ امیر المومنین کی زوجہ محترمہ ہے اب یہ سمر قندی کے اندر ایک امید پیدا ہو گئی کہ اب میرا سمر قند آزاد ہوگا کیوں کہ اب یہ حکومت کرنے والا عادل بادشاہ اب  ہم سمر قندوالوں کے ساتھ صحیح فیصلہ کرے گا

 باب سوم بہت جلد آنے والا ہے

Chapter three is coming very soon.

ٓٓ================================

سمرقند فتح نہیں ہوا بلکہ دل فتح ہوئے chapter 3

سمرقند فتح نہیں ہوا بلکہ دل فتح ہوئے chapter 1

Zandgi Ansan Ke Liye Azmaish or Amtahan ka Mujamua Hay.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *