سود در سود: حرمت، نقصانات اور شرعی احکامات

سود در سود: حرمت، نقصانات اور شرعی احکامات سود در سود: حرمت، نقصانات اور شرعی احکامات

سود در سود: حرمت، نقصانات اور شرعی احکامات

دیباچہ

اسلامی معیشت کا بنیادی ستون عدل و احسان ہے، جہاں کسی بھی قسم کے استحصال اور ظلم کی ممانعت کی گئی ہے۔ ان ممنوعہ امور میں سے ایک سود (ربا) ہے، جسے قرآن و حدیث میں سختی سے حرام قرار دیا گیا ہے۔ سود نہ صرف فرد کی معاشی حالت کو تباہ کرتا ہے بلکہ معاشرتی عدل کے نظام کو بھی درہم برہم کر دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا ناسور ہے جو دولت کو چند ہاتھوں میں مرکوز کر دیتا ہے اور غریبوں کو مزید غربت کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔ زیر نظر مقالہ میں ہم سود کی حرمت، اس کے نقصانات، اور سود در سود کے تصور پر سیر حاصل بحث کریں گے۔ ہم قرآنی آیات، احادیث نبویہ، اسلامی فقہاء کے اقوال، اور تاریخی واقعات کی روشنی میں اس کی قباحت کو واضح کریں گے۔

سود کیا ہے؟

سود لغوی اعتبار سے “زیادتی”، “بڑھوتری” اور “نماء” کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں سود سے مراد وہ اضافہ ہے جو قرض کی مدت میں اضافے یا محض وقت گزرنے کی بنیاد پر اصل رقم پر لیا جاتا ہے، یا وہ زیادتی جو لین دین میں معیار یا مقدار کی برابری کے بغیر حاصل کی جائے۔ آسان الفاظ میں، کسی کو قرض دے کر اس پر اضافی رقم کا مطالبہ کرنا یا لین دین میں ناجائز اضافہ حاصل کرنا سود کہلاتا ہے۔

سود کی اقسام

فقہاء کرام نے سود کی بنیادی طور پر دو اقسام بیان کی ہیں:

* ربا النسیئہ (قرض پر سود): یہ وہ سود ہے جو قرض پر لیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص نے دوسرے کو 100 روپے قرض دیے اور ایک ماہ بعد 110 روپے کا مطالبہ کیا، تو یہ 10 روپے “ربا النسیئہ” کہلائیں گے۔ دور جاہلیت میں یہی سود رائج تھا اور لوگ قرض کی واپسی کی مدت بڑھانے کے عوض سود میں اضافہ کرتے تھے۔ قرآن کریم میں جس سود کی شدید مذمت کی گئی ہے، اس سے مراد یہی سود ہے۔

* ربا الفضل (لین دین میں سود): یہ وہ سود ہے جو ایک ہی جنس کی دو اشیاء کے تبادلے میں مقدار یا معیار کی کمی بیشی سے حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی ایک کلو اچھی کھجور دے کر ایک کلو دو سو گرام خراب کھجور لے، تو یہ ربا الفضل کہلائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے چھ اشیاء میں ربا الفضل کی نشاندہی کی ہے: سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور اور نمک۔ ان اشیاء میں اگر ہم جنس کا تبادلہ کیا جائے تو برابری اور فوری قبضے کی شرط ہے۔

سود در سود کیا ہے؟

“سود در سود” کا تصور ایک ایسی صورتحال کو بیان کرتا ہے جہاں سود کی رقم پر مزید سود لگایا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر تب ہوتا ہے جب کوئی شخص اپنے قرض کی اصل رقم اور اس پر واجب الادا سود ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے، اور قرض دہندہ اس بقایا سود کو بھی اصل رقم میں شامل کر کے اس پر مزید سود لگانا شروع کر دیتا ہے۔ اسے “سود پر سود” یا “مرکب سود (Compound Interest)” بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک مالیاتی جال ہے جو مقروض کو قرض کی دلدل میں مزید گہرا اتار دیتا ہے، جہاں سے نکلنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

جدید بینکاری نظام میں یہ صورتحال عام ہے جہاں کریڈٹ کارڈز، ذاتی قرضوں اور دیگر قرضوں پر اگر مقررہ وقت پر ادائیگی نہ کی جائے تو بقایا رقم (اصل + سود) پر مزید سود لاگو ہوتا ہے۔ یہ وہ شکل ہے جو سود کی قباحت کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے اور مقروض کو شدید مالی دباؤ کا شکار کر دیتی ہے۔

قرآن کی روشنی میں سود کی حرمت

قرآن کریم نے سود کو انتہائی قبیح فعل قرار دیا ہے اور اس کے مرتکب افراد کے لیے سخت وعیدیں سنائی ہیں۔ سود کی حرمت کا ذکر مختلف سورتوں میں کیا گیا ہے:

سورہ بقرہ کی آیات

قرآن کریم میں سود کی حرمت کا سب سے واضح اور شدید حکم سورہ بقرہ کی آیات 275 سے 280 میں بیان کیا گیا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّـهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ}

(البقرہ 2:275)

“جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت کے دن قبروں سے) اس طرح اٹھیں گے جیسے کسی کو شیطان نے چھو کر پاگل کر دیا ہو۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا کہ بیع (خرید و فروخت) بھی تو سود ہی کی مانند ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرایا ہے۔ پس جس کو اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آ گیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اس کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اور جو پھر وہی کرے گا تو ایسے لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔”

اس آیت میں سود خوروں کی حالت کو نہایت ہی عبرت ناک انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ان کا حشر ایسا ہو گا جیسے جنون میں مبتلا شخص کا ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے سود کو بیع کے مقابلے میں لا کر اسے حرام قرار دیا، حالانکہ لوگ اسے بیع ہی کی طرح سمجھتے تھے۔

اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ سود کے انجام اور صدقے کے فائدے کو بیان فرماتے ہیں:

{يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ}

(البقرہ 2:276)

“اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ اور اللہ ہر ناشکرے، گناہ گار کو پسند نہیں کرتا۔”

اس آیت میں ایک طرف سود کے برکت سے خالی ہونے کا ذکر ہے اور دوسری طرف صدقات کی برکت کا۔ بظاہر سود سے مال بڑھتا نظر آتا ہے، لیکن اس کی برکت ختم ہو جاتی ہے، جبکہ صدقہ بظاہر مال میں کمی کرتا ہے، لیکن اللہ اسے کئی گنا بڑھا دیتا ہے اور اس میں برکت عطا فرماتا ہے۔

آیات کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور سود نہ چھوڑنے والوں کے لیے اعلان جنگ کی دھمکی دی جاتی ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٩﴾ وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ}

(البقرہ 2:278-280)

“اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم واقعی مومن ہو۔ پس اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان سن لو۔ اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اور اگر کوئی تنگ دست ہو تو اسے آسودہ حالی تک مہلت دو، اور اگر تم (قرض) معاف کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔”

یہ آیات سود کی حرمت کے بارے میں انتہائی سخت حکم دیتی ہیں۔ سود نہ چھوڑنے والوں کو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی دھمکی دی گئی ہے، جو اس کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ توبہ کی صورت میں اصل مال واپس لینے کی اجازت ہے، تاکہ نہ قرض دہندہ ظالم بنے اور نہ مقروض مظلوم۔ اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو اسے مہلت دینے کی تلقین کی گئی ہے، بلکہ اسے معاف کر دینے کو زیادہ بہتر قرار دیا گیا ہے۔

سورہ آل عمران میں سود کا ذکر

سورہ آل عمران میں بھی سود کو ایک نہایت ہی بُرا فعل قرار دیا گیا ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}

(آل عمران 3:130)

“اے ایمان والو! دگنا اور چوگنا کر کے سود مت کھاؤ۔ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔”

یہ آیت “سود در سود” یا “مرکب سود” کی قباحت کو خاص طور پر اجاگر کرتی ہے جہاں قرض کی رقم پر کئی گنا سود وصول کیا جاتا ہے۔ یہ لوگوں کو مالی طور پر مفلوج کر دیتا ہے اور انہیں کبھی بھی قرض کے جال سے نکلنے نہیں دیتا۔

احادیث نبویہ کی روشنی میں سود کی حرمت

نبی کریم ﷺ نے بھی سود کی حرمت کو واضح الفاظ میں بیان کیا اور اس کے نقصانات سے آگاہ فرمایا۔ آپ ﷺ نے نہ صرف سود کھانے والے کو، بلکہ اس کے ساتھ تعاون کرنے والوں کو بھی ملعون قرار دیا۔

سود خوروں پر لعنت

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

“رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس (سود کے لین دین) کو لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اور فرمایا کہ یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔” (صحیح مسلم: 1598)

یہ حدیث سود کی حرمت کی وسعت کو بیان کرتی ہے۔ اس میں نہ صرف سود لینے اور دینے والے کو، بلکہ اس میں معاونت کرنے والے ہر شخص کو بھی گناہ میں شریک قرار دیا گیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی معاشرت میں سود کا کوئی ادنیٰ ترین شائبہ بھی قابل قبول نہیں ہے۔

سود کو سات مہلک گناہوں میں سے ایک قرار دینا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! وہ کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن میدان سے بھاگنا، اور پاکدامن بھولی بھالی مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔” (صحیح بخاری: 2766، صحیح مسلم: 89)

اس حدیث میں سود کو شرک اور ناحق قتل جیسے بڑے گناہوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، جو اس کی سنگینی کو واضح کرتا ہے۔ یہ سات گناہ انسان کو دنیا و آخرت میں ہلاک کرنے والے ہیں۔

سود کا گناہ اپنی ماں سے زنا کے مترادف

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“سود کے ستر سے زائد درجے ہیں، ان میں سب سے ادنیٰ درجہ ایسا ہے جیسے کوئی اپنی ماں سے زنا کرے۔” (سنن ابن ماجہ: 2274، صحیح الجامع: 3539)

یہ حدیث سود کے گناہ کی شدت کو بیان کرنے میں انتہائی مؤثر ہے۔ اپنی ماں سے زنا کرنا ایک ایسا قبیح فعل ہے جس کا تصور بھی محال ہے۔ نبی کریم ﷺ نے سود کے ادنیٰ ترین درجے کو اس کے مشابہ قرار دے کر اس کی ہولناکی کو اجاگر کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سود کا گناہ کتنا بڑا ہے۔

سود کی صورتیں

نبی کریم ﷺ نے ربا الفضل کی صورتوں کو بھی واضح فرمایا:

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے، اور نمک نمک کے بدلے برابر برابر اور دست بدست (فوراً) فروخت کیا جائے۔ جب یہ اجناس مختلف ہوں تو پھر بیچو جیسے چاہو بشرطیکہ وہ دست بدست ہو۔” (صحیح مسلم: 1584)

یہ حدیث ربا الفضل کی بنیاد ہے اور ان چھ اشیاء میں ہم جنس کے تبادلے کے لیے برابری اور فوری قبضے کی شرط عائد کرتی ہے۔ اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو وہ سود کہلائے گا۔

بالکل، میں اسے مزید تفصیلات کے ساتھ جاری رکھتا ہوں۔ ہم نے قرآن و حدیث کی روشنی میں سود کی حرمت اور اس کی سنگینی پر بات کی ہے۔ اب ہم سود کے معاشرتی و معاشی نقصانات، سود در سود کے مزید گہرے اثرات، حکایات، اور شرعی احکامات پر تفصیلی گفتگو کریں گے۔

سود کھانے کے معاشرتی اور معاشی نقصانات

سود صرف انفرادی گناہ ہی نہیں بلکہ یہ پورے معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے۔ اس کے اثرات کسی ایک فرد تک محدود نہیں رہتے بلکہ یہ پورے معاشرتی ڈھانچے کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔

. طبقاتی تقسیم میں اضافہ اور دولت کا ارتکاز

سود کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ دولت کو چند ہاتھوں میں سمیٹ لیتا ہے اور معاشرے میں طبقاتی تقسیم کو بڑھا دیتا ہے۔ امیر مزید امیر ہوتا جاتا ہے اور غریب قرضوں کے بوجھ تلے دب کر اور غریب ہو جاتا ہے۔

امیر کی اجارہ داری: سود کی بنیاد پر کاروبار کرنے والے افراد یا ادارے ایسے پراجیکٹس میں سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں جن میں محنت اور رسک شامل ہو، کیونکہ انہیں سود کے ذریعے بغیر کسی محنت کے ایک مقررہ آمدنی کی ضمانت حاصل ہوتی ہے۔ اس سے پیداواری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں اور دولت کی گردش رک جاتی ہے۔

غریبوں کا استحصال: غریب اور ضرورت مند افراد قرض لینے پر مجبور ہوتے ہیں، اور سود کی وجہ سے وہ کبھی بھی اس قرض سے نجات حاصل نہیں کر پاتے۔ انہیں اپنی محنت کا بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں صرف کرنا پڑتا ہے، جس سے وہ بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتے اور ان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔

. معاشی عدم استحکام اور بحران

سودی نظام معیشت کو غیر مستحکم کرتا ہے اور مالی بحرانوں کو جنم دیتا ہے۔

* قرضوں کا بڑھتا بوجھ: جب قرضوں پر سود لیا جاتا ہے تو مجموعی قرض کا حجم تیزی سے بڑھتا ہے، خاص طور پر جب سود در سود (compound interest) لاگو ہو۔ یہ افراد اور ریاستوں دونوں کو قرض کے ایک ایسے چکر میں پھنسا دیتا ہے جہاں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ موجودہ عالمی مالیاتی بحرانوں کی ایک بڑی وجہ سودی نظام کی ہی پیداوار ہے۔

پیداواری سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی: سودی نظام میں سرمائے کی قدر اس کے پیداواری استعمال سے نہیں بلکہ محض وقت گزرنے اور سود کی شرح سے ہوتی ہے۔ اس سے حقیقی معیشت (real economy) یعنی صنعت، زراعت اور تجارت میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، کیونکہ لوگ بغیر کسی رسک کے سود کے ذریعے آسان آمدنی حاصل کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس سے بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔

افراط زر (Inflation): سودی نظام بعض اوقات افراط زر کا باعث بھی بنتا ہے۔ جب مرکزی بینک قرضوں پر سود کی شرح کم کرتے ہیں تو قرض لینا آسان ہو جاتا ہے، جس سے مارکیٹ میں کرنسی کا بہاؤ بڑھ جاتا ہے اور قیمتیں بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں۔

سماجی بگاڑ اور اخلاقی پستی

سود نہ صرف معاشی بلکہ سماجی اور اخلاقی طور پر بھی معاشرے کو گراتا ہے۔

باہمی ہمدردی کا خاتمہ: سود کا نظام معاشرے سے باہمی تعاون، ہمدردی اور اخوت کے جذبات کو ختم کرتا ہے۔ قرض دینے والا صرف اپنے منافع کو دیکھتا ہے، اور مقروض کی مشکلات سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس سے انسانیت کا اعلیٰ جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔

خود غرضی اور لالچ کا فروغ: سود کا لین دین افراد میں خود غرضی، لالچ اور دوسروں کا استحصال کرنے کے رجحان کو پروان چڑھاتا ہے۔ قرض دینے والا اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ مقروض کس حالت میں ہے، اسے صرف اپنا سود واپس چاہیے۔

دشمنی اور بغض: سودی لین دین اکثر باہمی رشتوں میں تلخی اور دشمنی پیدا کرتا ہے۔ قرض لینے والا سود کے بوجھ تلے دب کر قرض دینے والے سے بغض رکھنے لگتا ہے اور یوں باہمی تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔

سود در سود (Compound Interest) اور اس کے تباہ کن اثرات

سود در سود، جسے کمپاؤنڈ انٹرسٹ بھی کہتے ہیں، سود کی سب سے مہلک شکل ہے۔ اس میں نہ صرف اصل رقم پر سود لیا جاتا ہے بلکہ سود کی بقایا رقم پر بھی مزید سود لاگو ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا مالیاتی پھندا ہے جو مقروض کو قرضوں کے نہ ختم ہونے والے چکر میں پھنسا دیتا ہے۔

مثال:

ایک شخص نے 100 روپے 10% سالانہ سود پر لیے۔

پہلے سال: 100 روپے پر 10 روپے سود۔ کل رقم 110 روپے۔

دوسرے سال (سادہ سود): اگر سادہ سود ہوتا تو دوسرے سال بھی 100 روپے پر 10 روپے سود لگتا، کل 120 روپے۔

دوسرے سال (سود در سود): لیکن اگر سود در سود ہو تو اب سود 110 روپے پر لگے گا، یعنی 110 کا 10% = 11 روپے سود۔ کل رقم 110 + 11 = 121 روپے۔

تیسرے سال: سود 121 روپے پر لگے گا، یعنی 12.1 روپے سود۔ کل رقم 133.1 روپے۔

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح وقت کے ساتھ اصل رقم سے کئی گنا زیادہ رقم محض سود کی وجہ سے بن جاتی ہے۔ یہ وہ صورت ہے جس سے افراد، خاندان اور بعض اوقات پوری قومیں دیوالیہ ہو جاتی ہیں۔ جدید کریڈٹ کارڈ کا نظام اسی سود در سود پر چلتا ہے جو صارفین کو بظاہر چھوٹی رقم نظر آتی ہے لیکن اگر بروقت ادائیگی نہ کی جائے تو یہ کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

قرآن کی آیت “لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً” (آل عمران 3:130) کا اطلاق اسی سود در سود پر ہوتا ہے، جہاں قرض کی رقم کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور مقروض کی کمر توڑ دیتی ہے۔

سود کے لینے والے کا شرعی حکم

سود لینے والا اسلامی شریعت کی رو سے ایک گنہگار اور اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان ہے۔ اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔

جنگ کا اعلان: “فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ” (البقرہ 2:279) یہ آیت سود خوار کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ اس سے بڑا گناہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ حالت جنگ میں ہو۔

دنیا میں برکت کا خاتمہ: “يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّبَا” (البقرہ 2:276) اللہ سود کی برکت کو مٹا دیتا ہے۔ سود سے حاصل ہونے والی دولت بظاہر بڑھتی نظر آتی ہے، لیکن اس میں کوئی خیر و برکت نہیں ہوتی۔ ایسی دولت سے نہ دنیا میں سکون ملتا ہے اور نہ ہی آخرت میں نجات۔

قیامت کے دن ذلت: “لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ” (البقرہ 2:275) سود خور قیامت کے دن ایسے اٹھیں گے جیسے انہیں شیطان نے چھو کر پاگل کر دیا ہو۔ یہ ان کی ذلت اور رسوائی کی انتہا ہو گی۔

جہنم کا مستحق: “فَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ” (البقرہ 2:275) جو شخص توبہ کے بعد بھی سود خوری سے باز نہ آئے، وہ جہنم کا مستحق ہو گا اور اس میں ہمیشہ رہے گا۔

سود سے توبہ کا حکم

سود سے توبہ کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اگر کوئی شخص سود کے گناہ میں ملوث ہو چکا ہے، تو اس پر واجب ہے کہ وہ فوراً توبہ کرے اور سود سے باز آ جائے۔

اصل مال کی واپسی: “وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ” (البقرہ 2:279) اگر توبہ کر لی جائے تو سود معاف ہو جاتا ہے، لیکن صرف اصل مال ہی واپس لیا جا سکتا ہے، سود کی رقم نہیں لی جا سکتی۔ اگر کوئی سود کی رقم لے چکا ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اسے صدقہ کر دے یا کسی فلاحی کام میں لگا دے اور خود اس سے فائدہ نہ اٹھائے۔

تنگ دست کو مہلت یا معافی: “وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ” (البقرہ 2:280) اگر مقروض تنگ دست ہو تو اسے مہلت دینا چاہیے یا پھر قرض کو معاف کر دینا چاہیے، جو کہ زیادہ افضل ہے۔

حکایات اور واقعات

تاریخ اسلام اور اس سے ماقبل بھی سود کے نقصانات اور اس سے بچنے کی مثالیں ملتی ہیں۔

. دور جاہلیت میں سود کا رواج اور اس کا خاتمہ

عرب میں اسلام سے پہلے سود کا رواج عام تھا، خاص طور پر قبائل کے درمیان قرضوں پر سود لیا جاتا تھا۔ مدینہ منورہ میں بھی یہودیوں کے قبائل سود کے لین دین میں ملوث تھے، اور اوس و خزرج کے کئی افراد ان کے مقروض تھے۔ جب قرآن کریم میں سود کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو اس نے ایک معاشی انقلاب برپا کر دیا۔

فتح مکہ کے بعد نبی کریم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں واضح طور پر اعلان فرمایا:

“آج ہر قسم کا سودی معاملہ ختم کر دیا گیا ہے۔ اور سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کا سود ختم کرتا ہوں۔” (صحیح مسلم: 1218)

یہ اعلان اس بات کی علامت تھا کہ اسلامی نظام میں سود کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ سے قبل سودی کاروبار کیا تھا، اور ان کا سود سب سے پہلے ختم کر کے امت کو یہ پیغام دیا گیا کہ اس حکم پر بلا استثناء عمل کرنا ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سود سے متعلق ایک واقعہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک شخص ان کے پاس آیا اور ایک تنازعہ پیش کیا جو قرض اور سود سے متعلق تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سود کو سختی سے منع فرمایا اور قرض دہندہ کو صرف اصل مال لینے کا حکم دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں بھی سود کے خاتمے پر سختی سے عمل کیا جاتا تھا۔

. جدید دنیا میں سود کے نقصانات کی مثالیں

  2008 کا عالمی مالیاتی بحران: اس بحران کی ایک بڑی وجہ امریکہ میں رہن (mortgage) پر دیے گئے قرضوں اور ان پر لگنے والے سود کا نظام تھا، جہاں لوگوں کو ایسے قرضے دیے گئے جو وہ واپس نہیں کر سکتے تھے۔ جب سود کی شرحیں بڑھیں اور لوگ قرض ادا کرنے میں ناکام ہوئے تو بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کا نظام بیٹھ گیا، جس سے عالمی سطح پر معاشی بحران آیا۔

  غریب ممالک کی قرضوں میں جکڑن: بہت سے ترقی پذیر ممالک بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے بھاری سود پر قرضے لیتے ہیں۔ یہ قرضے اور ان پر واجب الادا سود اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ یہ ممالک اپنی آمدنی کا بڑا حصہ صرف سود کی ادائیگی میں صرف کرتے ہیں، جس سے ان کی ترقی رک جاتی ہے اور وہ غربت کے چکر سے باہر نہیں نکل پاتے۔ یہ سود در سود کی ایک عالمی مثال ہے۔

سود سے پاک متبادل نظام: اسلامی معیشت کا حل

اسلامی معیشت نے سود کے تباہ کن اثرات کا ادراک کرتے ہوئے ایک ایسا متبادل نظام پیش کیا ہے جو عدل، مساوات اور باہمی تعاون پر مبنی ہے۔ یہ نظام سود سے پاک ہے اور حقیقی معیشت (real economy) کو فروغ دیتا ہے۔

  1.  . مضاربہ (Profit Sharing)

مضاربہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں ایک فریق (رب المال) سرمایہ فراہم کرتا ہے اور دوسرا فریق (مضارب) اپنی محنت اور ہنر لگاتا ہے۔ دونوں فریق پہلے سے طے شدہ شرح کے مطابق منافع کو تقسیم کرتے ہیں۔ اگر نقصان ہو تو سرمائے کا نقصان رب المال برداشت کرتا ہے جبکہ مضارب کی محنت ضائع جاتی ہے۔ یہ سود کے برعکس ہے کیونکہ یہاں منافع کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی، بلکہ یہ حقیقی تجارت کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔

مشارکہ (Partnership)

مشارکہ میں دو یا دو سے زیادہ افراد کسی منصوبے میں مشترکہ طور پر سرمایہ کاری کرتے ہیں اور کاروبار کو چلاتے ہیں۔ نفع و نقصان دونوں شرکاء کے درمیان ان کے سرمایہ یا معاہدے کی شرائط کے مطابق تقسیم ہوتا ہے۔ مشارکہ میں تمام شرکاء کی ذمہ داری ہوتی ہے، جو اسے سود سے مختلف بناتا ہے جہاں قرض دہندہ کو صرف اپنے سود سے مطلب ہوتا ہے چاہے کاروبار کو نقصان ہی کیوں نہ ہو۔

. مرابحہ (Cost Plus Mark-up)

مرابحہ میں بینک یا مالیاتی ادارہ گاہک کی مطلوبہ چیز خریدتا ہے اور پھر اسے نفع (mark-up) کے ساتھ قسطوں پر گاہک کو بیچ دیتا ہے۔ یہاں یہ واضح ہوتا ہے کہ بینک نے چیز خریدی ہے اور اب اسے نفع پر بیچ رہا ہے۔ یہ سود نہیں ہے کیونکہ یہ ایک حقیقی خرید و فروخت کا معاملہ ہے، جہاں سامان کا تبادلہ ہو رہا ہے نہ کہ محض پیسے پر پیسے کا لین دین۔

. اجارہ (Leasing)

اجارہ میں ایک فریق (مالک) اپنی ملکیت کو دوسرے فریق (کرایہ دار) کو ایک مقررہ مدت کے لیے کرائے پر دیتا ہے، جس کے عوض کرایہ دار کرایہ ادا کرتا ہے۔ اجارہ میں ملکیت مالک کے پاس ہی رہتی ہے اور وہ اس کے نقصان کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ یہ کرایہ کا معاہدہ ہے نہ کہ قرض کا، اس لیے یہ سود نہیں ہے۔

قرض حسنہ (Interest-Free Loan)

قرض حسنہ ایسا قرض ہے جس پر کوئی اضافہ (سود) نہیں لیا جاتا۔ یہ خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے دیا جاتا ہے تاکہ ضرورت مند کی مدد کی جا سکے۔ یہ اسلامی معاشرے میں باہمی تعاون اور ہمدردی کی بہترین مثال ہے۔ قرض حسنہ کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، اور قرض دینے والے کو اس پر اجر عظیم ملتا ہے۔

سود کی حرمت کی حکمتیں

سود کی حرمت محض ایک حکم نہیں بلکہ اس کے پیچھے گہری حکمتیں اور فوائد پوشیدہ ہیں جو انسانیت اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہیں۔

معاشی عدل کا قیام: سود دولت کو چند ہاتھوں میں ارتکاز سے روکتا ہے اور معاشی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتا ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ دولت صرف محنت اور حقیقی پیداواری سرگرمیوں سے ہی حاصل ہو، نہ کہ محض وقت گزرنے سے۔

انسانی ہمدردی کا فروغ: سود کا خاتمہ افراد میں باہمی تعاون، ہمدردی اور اخوت کے جذبات کو پروان چڑھاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی مدد بلا کسی لالچ کے کرتے ہیں، جس سے معاشرتی امن و سکون قائم ہوتا ہے۔

حقیقی معیشت کی ترقی: سودی نظام کے برعکس، اسلامی معیشت حقیقی پیداواری سرگرمیوں جیسے تجارت، صنعت اور زراعت کو فروغ دیتی ہے، کیونکہ سرمائے کو محنت اور رسک کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور مجموعی معیشت مستحکم ہوتی ہے۔

استحصال کا خاتمہ: سود قرض خواہ کو مقروض کے مالی حالات سے فائدہ اٹھانے سے روکتا ہے۔ یہ ضعیف اور ضرورت مند طبقے کو سودی قرضوں کے شکنجے سے آزاد کرتا ہے۔

  مالی استحکام: سود سے پاک نظام مالی بحرانوں کو کم کرتا ہے، کیونکہ قرضوں کا حجم بے تحاشا نہیں بڑھتا اور قیاس آرائی پر مبنی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

خلاصہ اور پیغام

سود ایک ایسا گناہ ہے جسے قرآن و حدیث میں سخت ترین الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ یہ نہ صرف انفرادی طور پر انسان کی آخرت کو تباہ کرتا ہے بلکہ معاشرتی عدل کو بھی درہم برہم کر دیتا ہے اور معاشی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔ سود در سود کی صورت تو اس کے اثرات کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے، جس سے غریب اور مقروض افراد کبھی بھی قرض کے جال سے نکل نہیں پاتے۔

اسلام نے سود کے برعکس ایک جامع اور عادلانہ معاشی نظام پیش کیا ہے جو مضاربہ، مشارکہ، مرابحہ اور قرض حسنہ جیسے اصولوں پر مبنی ہے۔ یہ نظام نہ صرف معاشی خوشحالی لاتا ہے بلکہ باہمی ہمدردی، اخوت اور انسانیت کے اعلیٰ اقدار کو بھی فروغ دیتا ہے۔

بحیثیت مسلمان، ہم پر لازم ہے کہ ہم ہر قسم کے سودی لین دین سے اجتناب کریں اور اپنے مالی معاملات کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالیں۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا کی چند روزہ راحت کے مقابلے میں آخرت کی ابدی کامیابی زیادہ قیمتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سود جیسے قبیح فعل سے بچنے اور اپنی زندگیوں کو قرآن و سنت کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)


حضرت یاسر اور حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ

سورة لقمان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *