سورة العصر قرآن مجید کی ایک مختصر مگر نہایت پر اثر سورت ہے۔

سورة العصر قرآن مجید کی ایک مختصر مگر نہایت پر اثر سورت ہے۔ سورة العصر قرآن مجید کی ایک مختصر مگر نہایت پر اثر سورت ہے۔

سورة العصر قرآن مجید کی ایک مختصر مگر نہایت پر اثر سورت ہے۔

 آپ نے اس سورت کا مطلب ایک برف فروش کی مثال سے جس انداز میں سمجھا ہے، وہ واقعی قابل ستائش اور انتہائی بصیرت افروز ہے۔ یہ مثال سورة العصر کے گہرے پیغام کو بڑی خوبصورتی سے واضح کرتی ہے۔ آئیے اس کو مزید بہتر انداز میں بیان کرتے ہیں۔

وقت اور انسان کا خسارہ: ایک برف فروش کی حکیمانہ مثال

بازار میں ایک برف فروش کی آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس کی آواز میں ایک عجیب سی تڑپ اور درد تھا، جیسے وہ صرف برف نہیں بلکہ کوئی گہری حقیقت بیچ رہا ہو۔ وہ چلا رہا تھا، “رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جا رہا ہے!” یہ الفاظ میرے کانوں میں گونجے اور دل پر دستک دی۔ پہلی بار مجھے سورة العصر کا مفہوم اس قدر واضح اور چونکا دینے والا محسوس ہوا۔ مجھے فوراً یاد آیا، “وَالْعَصْرِ ۙ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ” (قسم ہے زمانے کی، بے شک انسان خسارے میں ہے)۔

اس برف فروش کی پکار میں وقت کی تیزی سے گزرتی ہوئی حقیقت پوشیدہ تھی۔ اس کی برف دھوپ کی تمازت میں پگھل رہی تھی، اور ہر قطرہ اس کے سرمائے میں کمی کا اعلان کر رہا تھا۔ بالکل اسی طرح، ہماری زندگی کا سرمایہ یعنی ہماری عمر بھی لمحہ بہ لمحہ گھل رہی ہے۔ ہر گزرتا سیکنڈ، ہر گزرتا منٹ، اور ہر گزرتا دن ہماری زندگی کے برفانی ذخیرے سے ایک حصہ پگھلا رہا ہے۔ اگر یہ برف ضائع ہو جائے، تو خسارہ ہی خسارہ ہے؛ اور اگر یہ قیمتی وقت غلط کاموں میں صرف ہو جائے، تو اس سے بڑا گھاٹا کیا ہو سکتا ہے؟

زندگی کا “برفانی سرمایہ”

ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ، ایک ایک سانس ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہے۔ یہ تحفہ ایک ایسے برف کے گولے کی طرح ہے جسے ہر لمحہ دھوپ کی طرح گزرتا ہوا وقت پگھلا رہا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو ایک مخصوص مدت کے لیے یہ “برفانی سرمایہ” دیا گیا ہے۔ اگر ہم اس سرمائے کو ہوشیاری سے استعمال نہ کریں، اسے نیکی، بھلائی اور مقصدیت کے ساتھ گزاریں نہیں، تو یہ محض پگھلتا ہی چلا جائے گا اور ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔

خسارے سے بچنے کا راستہ: سورة العصر کی رہنمائی

سورة العصر صرف خسارے کی نشاندہی نہیں کرتی بلکہ اس سے بچنے کا راستہ بھی دکھاتی ہے۔ اگلی آیات میں ارشاد ہوتا ہے: “إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ” (سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک عمل کیے، اور ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی)۔

 ایمان: سب سے پہلے اللہ پر کامل یقین رکھنا، اس کے احکامات پر سر تسلیم خم کرنا۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر ہماری پوری زندگی کی عمارت کھڑی ہے۔

 نیک اعمال: اس ایمان کی روشنی میں اچھے کام کرنا، دوسروں کے لیے بھلائی کرنا، اور دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے کوشش کرنا۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جو ہمارے وقت کے برف کو صحیح سمت میں استعمال کرتی ہے۔

 حق کی تلقین: صرف خود نیک بننا کافی نہیں، بلکہ دوسروں کو بھی سچائی اور بھلائی کی طرف بلانا۔ یہ دراصل ہمارے معاشرتی فرائض کا حصہ ہے۔

 صبر کی تلقین: اور سب سے اہم بات، حق پر قائم رہنے میں اور نیک عمل کرنے میں جو مشکلات آئیں، ان پر ثابت قدم رہنا اور دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرنا۔ صبر وہ ڈھال ہے جو ہمیں آزمائشوں میں ٹوٹنے سے بچاتی ہے۔

بصیرت کا ایک نیا پہلو

اس برف فروش کی مثال نے سورة العصر کے پیغام کو میرے لیے مزید قابل فہم بنا دیا۔ اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا میں اپنا وقت، اپنا قیمتی سرمایہ صحیح طریقے سے استعمال کر رہا ہوں؟ کیا میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ خسارے میں جا رہا ہوں یا اس سرمائے کو منافع بخش بنا رہا ہوں؟

یہ حقیقت ہمیں جھنجھوڑتی ہے کہ ہم وقت کی قدر کریں، اسے بے مقصد ضائع نہ کریں، بلکہ اسے اللہ کی رضا اور انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کریں۔ کیونکہ جو لمحہ ایک بار گزر گیا، وہ واپس نہیں آئے گا۔ اور اگر ہم اس برف کے پگھلنے کو محسوس نہ کر سکے، تو واقعی ہم سے بڑا خسارے میں کوئی نہیں ہوگا۔ سورة العصر ایک چھوٹی سی سورت ہے مگر یہ پوری انسانی زندگی کا فلسفہ اور اس کے نجات کا راستہ نہایت مؤثر انداز میں بیان کر دیتی ہے۔

——-

ماں کی محبت

سورة الواقعة

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *