شاندار عدالت، بے مثال انصاف: سمرقند کی فتح کا لازوال قصہ

شاندار عدالت، بے مثال انصاف: سمرقند کی فتح کا لازوال قصہ شاندار عدالت، بے مثال انصاف: سمرقند کی فتح کا لازوال قصہ

شاندار عدالت، بے مثال انصاف: سمرقند کی فتح کا لازوال قصہ

(اسلامی تاریخ کا ایک ایسا ناقابل فراموش واقعہ جسے پڑھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے…!)

خلافتِ اسلامیہ کے پانچویں خلیفہ راشد، حضرت عمر بن عبد العزیز علیہ رحمہ کے دور کا یہ وہ قصہ ہے جو عدل و انصاف کی ایک سنہری مثال بن گیا۔

سمرقند سے ایک طویل سفر طے کر کے ایک قاصد دمشق پہنچا، اس کا مقصد مسلمانوں کے حکمران عمر بن عبد العزیز سے ملاقات کرنا تھا۔ اس کے ہاتھ میں سمرقند کے سب سے بڑے پادری کا ایک خط تھا، جس میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کے خلاف شکایت درج تھی۔

پادری کی فریاد اور خلیفہ کی سادگی

پادری نے اپنے خط میں لکھا تھا: “ہم نے سنا تھا کہ مسلمان جنگ سے پہلے اسلام کی دعوت دیتے ہیں، قبول نہ کرنے پر جزیہ کا مطالبہ کرتے ہیں، اور اگر دونوں شرائط منظور نہ ہوں تو جنگ کا اعلان کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا، قتیبہ بن مسلم نے راتوں رات اچانک حملہ کر کے ہمیں زیر کر لیا۔”

قاصد، دمشق میں خلیفہ کی قیام گاہ کی تلاش میں جب ایک انتہائی معمولی اور خستہ حال گھر تک پہنچا تو حیران رہ گیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک شخص سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا ہے اور ایک عورت نیچے سے اسے گارا دے رہی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر اسے یقین ہی نہیں آیا کہ یہ اسلامی سلطنت کے حکمران کا گھر ہو سکتا ہے۔ وہ واپس لوگوں کے پاس گیا اور کہا کہ میں نے بادشاہ کا پتہ پوچھا تھا، نہ کہ کسی غریب شخص کا! لوگوں نے جواب دیا: “ہم نے تمہیں بالکل صحیح پتہ بتایا ہے، وہی امیر المومنین عمر بن عبد العزیز کا گھر ہے۔”

مایوس ہو کر قاصد دوبارہ اسی گھر لوٹا اور دستک دی۔ وہی شخص جو چھت کی لپائی کر رہا تھا، باہر آیا۔ قاصد نے اپنا تعارف کروایا اور خط پیش کیا۔ عمر بن عبد العزیز نے خط پڑھا اور اس کی پشت پر صرف چند الفاظ لکھے: “عمر بن عبد العزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام: ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے۔” خط پر مہر لگا کر واپس قاصد کے حوالے کر دیا۔

عدالت کا منظر اور قاضی کا فیصلہ

قاصد جب سمرقند لوٹا اور پادری کو خلیفہ کا جواب اور ملاقات کا احوال بتایا تو پادری پر بھی مایوسی چھا گئی۔ اسے یقین نہیں آیا کہ کاغذ کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا مسلمانوں کے عظیم لشکر کو ان کے شہر سے نکال سکے گا! مگر کوئی چارہ نہ تھا، چنانچہ وہ خوف زدہ ہو کر امیر لشکر قتیبہ بن مسلم کے پاس پہنچا۔ قتیبہ نے خط پڑھتے ہی فوری طور پر ایک قاضی کا تقرر کیا تاکہ سمرقندیوں کی شکایت سنی جا سکے۔

قاضی نے پادری سے پوچھا: “تمہارا دعویٰ کیا ہے؟”

پادری نے کہا: “قتیبہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور نہ سوچ بچار کا موقع دیا۔”

قاضی نے قتیبہ کی طرف دیکھا اور پوچھا: “تم اس دعوے کے جواب میں کیا کہتے ہو؟”

قتیبہ نے جواب دیا: “قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے۔ سمرقند ایک عظیم ملک تھا اور اس کے ارد گرد کے ممالک نے نہ تو ہماری دعوت مانی اور نہ جزیہ دینا قبول کیا۔ ہمیں پورا یقین تھا کہ سمرقند والے بھی لڑائی کو ہی ترجیح دیں گے، سو ہم نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور قبضہ کر لیا۔”

قاضی نے قتیبہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا: “قتیبہ، میری بات کا جواب دو، کیا تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے، جزیہ دینے یا جنگ کی خبر دی تھی؟”

قتیبہ نے اقرار کیا: “نہیں قاضی صاحب، جیسا کہ میں نے پہلے ہی عرض کر دیا، ہم نے موقع سے فائدہ اٹھایا تھا۔”

اس پر قاضی نے کہا: “میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو۔ اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا! اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت عدل و انصاف کی وجہ سے ہی دی ہے، نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔”

قاضی نے تاریخ ساز فیصلہ سنایا: “میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور ان کے عہدہ داران، بمع اپنی بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک اور مال غنیمت چھوڑ کر سمرقند کی حدود سے باہر نکل جائیں۔ سمرقند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔ اگر انہیں دوبارہ آنا بھی ہو، تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیے بغیر نہ آیا جائے۔”

عدل کی فتح اور دلوں کی تسخیر

جو کچھ پادری نے دیکھا اور سنا، وہ ناقابل یقین تھا۔ چند گھنٹوں کے اندر ہی، مسلمانوں کا عظیم لشکر، قافلہ در قافلہ شہر چھوڑ کر جا چکا تھا۔ سمرقندیوں نے اپنی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا کہ کوئی طاقتور فاتح قوم یوں کمزور مفتوح قوم کو دوبارہ آزادی بخش دے۔

ڈھلتے سورج کی روشنی میں، لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے کہ یہ کیسا مذہب اور کیسے پیروکار ہیں؟ عدل کا یہ معیار کہ اپنے سپہ سالار کے خلاف ہی فیصلہ دے دیں، اور طاقتور سپہ سالار اس فیصلے پر سر جھکا کر عمل بھی کر دے!

تاریخ گواہ ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں، پادری کی قیادت میں شہر کے تمام لوگ اپنے گھروں سے نکل کر لشکر کے پیچھے سرحدوں کی طرف دوڑے اور “لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ” کا اقرار کرتے ہوئے انہیں واپس لے آئے کہ “یہ آپ کی سلطنت ہے اور ہم آپ کی رعایا بن کر رہنا اپنے لیے فخر سمجھیں گے۔”

دینِ رحمت نے سمرقند میں ایسے گہرے نقوش چھوڑے کہ یہ شہر ایک طویل عرصے تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔

کاش رہبرِ دو عالم حضرت محمد ﷺ کی امت آج بھی ایسی ہی ہوا کرتی


گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا

سورة الفتح

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *