ظلم کا انجام
ظلم کا انجام
اللہ تبارک و تعالی قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے
والله لا يهدي القوم الظالمين
ظلم کی تعریف
هو وضع شيء في غير موضعه
یعنی کسی چیز کو اس کے اصل مقام کے بجائے دوسرے مقام میں رکھنا کا نام ظلم ہے، ظلم کی اس تعریف کا یہ مفہوم ہر اس چیز کو شامل ہے جس میں تعدی اور تجاوز ہوا ہو۔۔ لیکن شریعت کی روشنی میں ظلم کی تعریف میں یہ خیال رکھنا ہوگا کہ شرعی اصطلاحی ظلم وہ ہے جس میں امور شریعہ کی حدود سے تجاوز کیا گیا ہو۔۔
حرف عام میں ظلم لوگوں کے ان حقوق میں تجاوز اور زیادتی کو کہتے ہیں جن کا تعلق لوگوں کے مال و جان اور عزت وہ ابرو سے ، یعنی لوگوں کے مال و جان اور عزت وآبرو میں تجاوز اور زیادتی کرنے کا نام ظلم ہے۔۔
مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ سابقہ اقوام کے واقعات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے کافر قوموں پر اس وقت ہاتھ ڈالا ہے جب یہ قوم شرک و کفر کے بعد ظلم پر اتر ائے، اللہ تعالی کا اعلان ہے کہ لوگوں میں نے اپنے اوپر ظلم حرام کیا ہے اور تم بھی ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو میں تم پر بھی ظلم کو حرام قرار دیتا ہوں۔۔
قیامت کے دن ظلم اندھیروں کی صورت میں ہوگا
وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال، الظلم ظلمات يوم القيامه
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی صورت میں ہوگا۔۔
یعنی ظلم کے بدلے میں ایسے اندھیروں میں مبتلا ہوگا جو اس کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوںگے اور اس ظالم کے پاس کوئی نور نہیں ہوگا ظلم کی یہ تاریکیاں ایک نہیں بلکہ مختلف شکلوں میں ہوگی اور یہ ظالم اس میں بھٹکتا پھرتا ہوگا جبکہ مسلمانوں کے پاس ایمان کا نور ہوگا جس کی مدد سے وہ آسانی سے ادھر ادھر جاتے ہوں گے اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ظلم کے ضمن میں کئی دیگر جرائم کا بھی ارتکاب ہوتا ہے اسی لیے قیامت میں ایک نہیں بلکہ کئی تاریکیاں بن جاتی ہے۔۔
قیامت کے دن ظالم سے ظلم کا بدلہ کس طرح لیا جائے گا؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن حق داروں کو ان کے حقوق ادا کیے جائیں گے یہاں تک کہ بے سینگ بکری کا قصاص سنگ دار بکری سے لیا جائے گا۔۔
قیامت کے دن سب سے بڑا فقیر
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جانتے ہو مفلس کون ہے صحابہ نے جواب دیا کہ ہم میں مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ تو درہم و دینار ہو نہ سامان و اسباب ،چنانچه اپ نے فرمایا میری امت مرحومه میں مفلس شخص در حقیقت وہ ہے جو قیامت کے دن میدان حشر میں دنیا سے نماز روزہ اور زکوۃ لے کر ائے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی تھی کسی پر تہمت لگائی تھی کسی کو مارا پیٹا تھا چنانچہ اس کی نیکیوں میں سے پہلے کسی ایک مظلوم و صاحب حق کو اس کے حق کی بقدر نیکیاں دی جائے گی یہاں تک کہ اگر اس کے ان گناہوں کا فیصلہ ہونے سے پہلے اس کے تمام نیکیاں ختم ہو جائے گی تو ان حقداروں اور مظلوموں کے گناہ جو انہوں نے دنیا میں کیے ہوں گے ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیا جائے گا اور پھر اس کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔۔
=========
سات چیزوں کا حکم کرنا اور سات سے منع کرنا
================
جزاک اللہ